محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان کسی بھی ملک کو کیا جانے والا وفود کے عددی اعتبار سے سب سے بڑا دورہ ہوگا جس میں تاریخی سرمایہ کاری کے معاہدے کئے جائیں گے۔کچھ لوگوں کو مودت ومحبت کا یہ مظاہرہ ہضم نہیں ہورہا۔ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب کی پاکستان پہ مہربانیاں بلاوجہ نہیں۔انہیں غالباً بدلتی دنیا کے تقاضوں کا علم ہی نہیں ۔پرانے بلاک ٹوٹ چکے ہیں اور دنیا کا ہر ملک اپنے مفادات کے مطابق امکانات کو لپک لپک کر پکڑ رہا ہے۔ سرمایہ آج پہلے سے زیادہ کھل کر کھیل رہا ہے ۔ امریکہ کی گرفت دنیا پہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایران اور شمالی کوریا پہ عائد نئی اقتصادی پابندیوں کی یورپ نے دھجیاں اڑا دیں۔چین کے ساتھ تجارتی جنگ سے بھی کوئی خاص مقاصد حاصل نہ ہوسکے حتی کہ بھارت اور چین سمیت چالیس ممالک کو ایران سے تیل درآمد کرنے کی چھوٹ دینی پڑی۔اس کے باوجود حال ہی میں امریکہ کی تیل کی پیداوار میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ سال کے آخری عشرے میں پہلی بار اس کی تیل کی برآمدات ،درآمدات سے بڑھ گئی ہیں۔اندازہ ہے کہ اس سال اس کی یومیہ تیل کی پیداوار 10.6ملین بیرل ہوجائے گی جو اگر اسی طرح جاری رہی تو 2040 ء تک امریکہ دنیا کا پچھتر فیصد تیل پیداکرنے میں کامیاب ہوجائے گا جبکہ اس کے ٹیکساس میں پرمیان کے تیل کے 140,000کنویں اتنے بڑے ہیں کہ اگر تیل کی قیمت کم ترین سطح پہ بھی آجائے تب بھی وہ منافع بخش ہونگے۔ دوسری طرف نہ صرف اوپیک اپنی پیداوار کم کررہا ہے بلکہ سعودی عرب کے پاس اب مبینہ طور پہ محض ستر برسوں کا ذخیرہ رہ گیا ہے ۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اوپیک ممالک ایک ایک کرکے ٹھکانے لگائے جارہے ہیںجن کی سب سے بڑی غلطی تیل کو بے تحاشہ استعمال کرنا اور ٹیکنالوجی کے حصول سے گریز تھا کیونکہ تیل بیچنا ایک آسان سرمایہ کاری تھی۔امریکہ ایک عرصے سے ٹیکنالوجی پہ کام کررہا تھا اور اب اس کا پھل کھانے کا وقت آگیا ہے۔ اس طرح کچھ ہی عرصے میں وہ عرب ملکوں بالخصوص سعودی عرب کے تیل پر انحصار سے آزاد ہوجائے گا۔امکان غالب ہے کہ اب وہ تیل بیچے گا اور سکون سے جئے گا اور جینے دے گا۔ وہ ہر اس محاذ سے باعزت واپسی چاہتا ہے جہاں برسوں سے اس نے سینگ پھنسا رکھے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ اسٹیٹ آف یونین خطاب میں بات ایک فقرے میں ختم کردی ہے۔عظیم اقوام ختم نہ ہونے والی جنگیں نہیں لڑا کرتیں۔امریکہ صدر ٹرمپ کی سربراہی میں نہایت سنجیدگی اور سفاکی سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے جس میں سرفہرست ترجیح اس کی معاشی بحالی اور ترقی ہے۔ اس نے مشرق وسطی میں ایک خطرناک کھیل کھیلا اور حسب منشا نتائج حاصل کرلئے۔اس کا فائدہ سب سے زیادہ ایران کو ہوا اور سب سے زیادہ نقصان سعودی عرب کو اٹھانا پڑا۔ اسی نقصا ن کا ہوا دکھا کر امریکہ نے اس کے ساتھ اربوں ڈالر کے عسکری معاہدے کئے جو عسکری تاریخ کے سب سے بڑے معاہدے سمجھے جاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اب تک اس نے صرف ایک 45ملین ڈالر کے معاہدوں پہ عمل کیا ہے۔یمن بھی ایک ایسا ہی محاذ ہے جہاں سعودی عرب پھنسا ہوا ہے۔یہاں ایران نے بے حجابانہ کھیل کھیلا ہے۔یمن کی اسی صورتحال کے پس منظر میں کچھ لوگوں کو وہم ہوگیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے یمن میں مداخلت کا خواستگار ہے۔میرا خیال ہے کہ انہیں صورتحال کا درست ادراک ہی نہیں ہے۔ پاکستان کسی صورت یمن کی آگ میں کودنے والا نہیں ہے اور یہ بات سعودی عرب کو پوری صراحت کے ساتھ معلوم ہے۔ یہ درست ہے کہ محمد بن سلمان کی آمد سے قبل جنرل راحیل شریف نے اسلامی اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان کا دورہ کیا اور اعلی فوجی حکام سے ملاقاتیں کیں ۔اس کے علاوہ بھی کچھ اہم عسکری عمال پاکستان ہوکر جاچکے ہیں اور محمد بن سلمان کے ساتھ اسلامی اتحاد کا وفد بھی آرہا ہے لیکن پھر بھی یمن جنگ میں پاکستان کی شمولیت بعید از قیاس ہے۔ ایران کے ہاتھ صرف اس صورت میں روکے جاسکتے ہیں جب اس کی معاشی ناکہ بندی کی جائے۔ بدقسمتی سے امریکہ نے یہاں سعودی عرب کے ساتھ دوغلا کھیل کھیلاہے۔ایران پہ عائد اقتصادی پابندیوں نے اس کے ہاتھ مضبوط کئے اور جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پہ نکل جانے سے ایران کو سفارتی فوائد حاصل ہوئے۔ سعودی عرب کو توقع یہ تھی کہ امریکہ ونیزویلا میں مداخلت کرے گا جہاں سے ایرانی حزب اللہ کو معاشی امداد جاری ہے اور سربراہان حزب اللہ نے سونے کی کانیں خرید رکھی ہیں لیکن یہ طے ہے کہ امریکہ دھونس دھمکیوں سے کام چلانے کو تیار ہے لیکن کہیں مداخلت کرنے کا اب اس کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ سعودی عرب کے پاس خطرناک معاشی اور سیاسی صورتحال سے نکلنے کے دو راستے ہیں اور دونوں محمد بن سلمان نے بڑی جرات کے ساتھ اختیار کئے ہیں۔ایک سعودی معیشت کو تیل کی انحصاری سے نکالنا ہے جسے وژن 2030 ء کانام دیا گیا ہے۔اسی کے تحت سعودی عرب نے تاریخ میں پہلی بار سیاحت کے لئے اپنے ملک کو کھول دیا ہے اور العلا رائل اتھارٹی قائم کی ہے جس میں عاد وثمود اورمداین وغیرہ کے قدیم ترین آثار موجود ہیں ۔ یہ اتھارٹی اگلے سال تک اپنا کام مکمل کرلے گی اور دس لاکھ سیاح سالانہ کی آمد متوقع ہوگی۔ رابغ میں شاہ عبداللہ بندرگاہ کا افتتاح بھی کردیا گیا ہے جو افریقہ، ایشیا اور یورپ کو آپس میں جوڑے گی۔دوسرا راستہ سعودی عرب کا جوہری پروگرام ہے ۔امریکہ کی بے وفائی سعودی عرب کو جوہری پروگرام پہ عمل کرنے پہ اکسا رہی ہے۔ کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا سعودی عرب کو کیا فائدہ ہوگا ۔حقیقت یہ ہے کہ گوادر آئل سٹی کا سب سے بڑا فائدہ خود سعودی عرب کو ہی ہے۔وہ خدشات جو چین کو آبنائے ملاکہ میں بھارت اور امریکہ سے لاحق ہیں ، بعینہ وہی سعودی عرب کو خلیج میں آبنائے ہرمزپر ایران سے لاحق ہیں جسے یمن کے ساتھ سعودی عرب کے تنازعے کے دوران ایران کئی بار بند کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔دنیا کی تیل کی تجارت کا پانچواں حصہ یا بیس ملین بیرل یومیہ اسی آبناء ہرمز سے گزرتا ہے۔ایران کی بڑھتی ہوئی عسکری جارحیت سے تنگ سعودی عرب اورامارات نے پائپ لائنیں بچھا رکھی ہیں جو اس آبنائے کو بائی پاس کرتی ہیں لیکن ان کے ذریعے بہت ہی کم ترسیل ممکن ہوتی ہے ۔آبنائے ہرمز سے صرف چار سو کلومیٹر کے فاصلے پہ گوادر پورٹ اس مسئلے کا حل بھی پیش کرتا ہے جو فاصلہ بھی بچائے گا اور سرمایہ بھی اور ساتھ ہی موجود چاہ بہار پہ نظر بھی رکھے گا۔اس سے ایران کو تحفظات ہوسکتے ہیں لیکن یمن میں پاکستان کی عدم شمولیت اس کے اطمینان کے لئے کافی ہوگی۔ بدلتی دنیا میں ہر ملک جانتا ہے کہ توازن کیسے قائم کیا جاتا ہے۔ آخر سعودی عرب نے بھارت کے ساتھ بھی تو اربوں ڈالر کے معاہدے کررکھے ہیں۔