ہمارے ایک دوست المعروف راڈو بابا، جنکا دھندا ' صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں' کی مثال ہے، آج کل ایک عجیب چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ انکا مانناہے کہ کورونا سے آگاہی کی مہم اگرچہ ازحد ضر وری ہے لیکن اسے ترتیب دینے والوں کی یا تو نیت ٹھیک نہیں یا پھر وہ اس ریچھ کی طرح ہیں جو جنگل سے گزرتے انسان کا دوست بن گیا تھا اور دوست کی نیند میں خلل ڈالنے والی مکھیوں کو بھگاتے اسکا سر کچل بیٹھا تھا۔ جسمانی فاصلے کی بات کرنے کی بجائے سماجی دوریوں کی ’تبلیغ‘ کی جار ہی ہے، پیغام مبہم تو ہے ہی ، جس پیمانے پر تشہیر ہورہی ہے اس کے نتائج پر کوئی غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ خود حکمران طبقہ جسمانی فاصلے کا مذاق اڑا رہا ہے، سیاسی جسلوں اور پریس کانفرنسوں میں اس تصور کی نفی عام دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پچھلے سال تین سے پانچ فٹ دور رہنے کی بات فردوس عاشق اور ظفر مرزا نے تو ہوا میں ہی اڑا دی تھی، اس دفعہ سیاسی پارٹیوں نے گلگت بلتستان کا الیکشن دھوم دھڑکے سے لڑا ہے۔ پاکستان جمہوری تحریک کورونا کی دوسری لہر کے باوجود جلسوں اور جلوسوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ بلال بھٹو زرداری اور قمر زمان کائرہ تک کورونا سے متاثر ہوئے ہیں لیکن عوام کو اب بھی جلسوں میں جانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ پولیس کو نہیں سمجھایا گیا کہ عوام سے سماجی طور پر نزدیک ہونا ہے لیکن جسمانی فاصلے کی ازحد پابندی ان کی اپنی سلامتی کا تقاضہ ہے۔ لوگوں کو مرغا بنانا ہو یا پھر انکی چھترول کرنا ، ایسا کام ’جسمانی فاصلے‘ کی خلاف ورزی کے بغیر تو نہیں ہوسکتا نا۔ باباجی کو کورونا روز اول ہی سے پسند نہیں آیا تھا۔ چین اور ایران سے انسانی ہلاکتوں کی خبر پر انہوں نے کافی ناک بھوں چڑھایا تھا۔ لاک ڈاون کا اعلان ہوا تو وہ جلال میں آگئے۔ ’’میں ایک عدد بندوق کی تلاش میں ہوں، تاکہ کورونا میرے سامنے آئے تو اسے گولی ماردوں‘‘ انکے وہ الفاظ ہیں جو کورونا جیسی موذی وبا کے خیال کے ساتھ ہمارے ذہن پر نقش ہوکر رہ گئے ہیں۔ کیا انہیں پتہ نہیں تھا کہ کورونا کو روایتی ہتھیاروں سے ڈر نہیں لگتا َ؟ وہ جانتے تھے کہ مملکت خداداد کے پاس بڑے ’ نادر‘ قسم کے ہتھیار ہیں، جنہیں تخلیق کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ’گھاس ‘ تک کھلانے کی قسم کھائی تھی۔ لیکن شومئی قسمت کہ دشمن بھی ملا تو ایسا جو ہمیں للکارے بغیر وار کرتا ہے، مدمقابل کا مقام اور عہدہ تک نہیں دیکھتا۔ جغرافیائی کیا ’نظریاتی‘ سرحدوں تک کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ ہم سمجھ نہیں پارہے تھے کہ با باجی کے جلال کا ’اصلی والا‘ سبب کیا تھا۔ ’دشمن‘ کی بزدلی ، مناسب ’دفاعی‘ حصار کا نہ ہونا، یا پھر کورونا کے آگے پیچھے مٹکتی اشتہاری مہم چلانے والوں کا غیر پیشہ وارانہ رویہ۔ جس قبیل کی ہم نے تعلیم حاصل کی تھی، ہم تو کب سے ’لکھ‘ رہے تھے کہ جتنی چربی فیصلہ سازوں کی آنکھوں پر چڑھ چکی ہے یہ ملک کسی بھی وقت بند گلی میں پھنس سکتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی، بے ہنگم طور پر آباد شہر اور وسائل کی قطعی طور پر ’ناجائز‘ تقسیم ایک ’سٹریٹجک‘ خطرہ بن چکا ہے ، دفاعی پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جائے لیکن جہاں ’سائنسدانوں‘ کی کوئی نہیں سنتا ، وہاں کالم نگار کس باغ کی مولی ہیں۔ ا ب خطرہ منہ پھاڑ کر سامنے آگیا ہے تو حواس باختہ حکمرانوں کے پاس نہ پیسے ہیں اور نہ ہی ہیلتھ کئیر کا نظام۔ فرض کریں عوام غربت میں گزارہ بھی کرلیں گے لیکن اشرافیہ کی اس نا اتفاقی کا کیا کریں کہ کوئی متفقہ لائحہ عمل لانے کی بجائے آپس میں دست وگریباں ہے۔ انتظامی اور مالیاتی بدنظمی کی وجہ سے بھوک اور بیماری پہلے ہی عفریت بن چکے تھے کہ اوپر سے کرونا بھی آدھمکا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ سابقہ حکمران پارٹیاں گنجان آباد شہروں میں جلسے کرکے کورونا، جسکی دوسری لہر وارد ہوچکی ہے ، اسے مزید اشتعال دلارہی ہیں۔ بسوں اور ٹرکوں پر لاد کر لائے جانے والے سیاسی کارکنان کو لنگر تو ملے گا ہی لیکن اس کے ساتھ وہ کون سی مصیبتوں لے کر جائیں گے، سوچ کر دل میں ہول سا اٹھتا ہے۔ تازہ کاروائی ملتان میں ڈلنے والی ہے جہاں یوسف رضا گیلانی نیلی اجرک والوں کو جلسے میں آنے کی دہائیاں دے رہے ہیں باوجود اس کے پیپلز پارٹی نے انہیں دہائیوں سے دکھائے گئے صوبے کے خوابوںکے رنگ تخت لہور کے ساتھ مل کر بھنگ ہی کر ڈالا ہے۔ سرائیکی صوبے سے بات جنوبی پنجاب تک پہنچی لیکن لٹھ سے مولہی بننے والے معاملے کا پاکستان جمہوری تحریک کے منشور میں ذکر تک ہی نہیں۔ بلاول بھٹو قنطرینہ میں ہیں ، ملتان نہیں آپائیں گے۔ یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی قوم پرستی پر کافی سرمایہ کاری کی ہے دیکھتے ہیں کہ نیلی اجرک ملتان کے جلسے میں کیا رنگ دکھلاتی ہے۔ ایک تو قوم پرست جھومری غضب کے ہیں دوسرے حکومت نے بھی نعرہ لگا دیا ہے کہ بہت ہوگیا، پشاور جلسے والی غلطی ہوگئی، مزید برداشت نہیں کریں گے۔ لے دے کر حکومت پاس دور غلامی کی یادگار دفعہ ایک سو چوالیس ہی رہ گئی ہے جس سے بیچ پچاو کا راستہ نکل سکتا ہے۔ ورنہ ، ’اْتے خدا تے تلے ڈی سی‘ اور نیم تربیت یافتہ پولیس ہی ہوگی، خدا خیر کرے۔ وقت لگے گا ہیلتھ ایمرجنسی کے تقاضوں کو سمجھنے میں۔ لیکن ہمیں تازہ فکر ہے راڈو باباکی جو اپنا ’بریف کیس‘ چینل اٹھائے کورونا کے گردو پیش کا پتہ لگانے چلے گئے ہیں۔ کورونا کے سامنے تو وہ نہیں آنیوالے کیونکہ آخری اطلاعات تک انہیں مطلوبہ بندوق نہیں ملی تھی، کہیں جلال میں کورونا کے پچھواڑے نہ چلے گئے ہوں کیونکہ ان سے ہمارا’سماجی فاصلہ‘ تشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے، فون تک پر بھی بات نہیں ہو پارہی۔