یادش بخیر مارچ2003ء میں پنجاب یونیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریم میں اس وقت کے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ جناب پرویز الٰہی کے ہاتھوں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری وصول کی تو لوگوں کو بتاتے ہوئے تأمل ہوتا تھا کہ دنیائے علوم کی سب سے بڑی سند ہم نے ایک ایسے سیاست دان کے ہاتھوں وصول کی، جو سیاست میں جوڑ توڑ کے لیے مشہور ہے۔ حالانکہ اس سیاست دان کے کریڈٹ پہ 1122 ،ٹریفک وارڈنز، کارڈیالوجی اور ایف سی یونیورسٹی کے خوبصورت ای بلاک سمیت بہت سی نیک نامیاں موجود ہیں۔ذات کا جاٹ ہے اور رکھ رکھاؤ، ادب آداب، خیالِ خاطرِ احباب اس کے خون میں شامل ہے۔ شہباز شریف اور اس میں ڈرامے بازی اور اوچھے پن کا فرق ہے… مراد علی شاہ، قائم علی شاہ وغیرہ سے موازنے کے بعد تو وہ ولی اللہ محسوس ہوتا ہے۔ سوچ رہا ہوںکہ صرف اٹھارہ سالوں میں ہماری سیاست کا یہ حال ہو گیا ہے کہ اب وہی پرویز الٰہی دانا ترین سیاست دان لگنے لگا ہے۔ آپس کی بات ہے اس دورانیے میں پرویز الٰہی کا مورال اتنا بلند نہیں ہوا، جتنا ہماری سیاست کم ظرفی، بد عملی، دھوکا فریب، لُوٹ مار اور ہر طرح کی پستیوں کی آخری حدوں کو چھونے لگی ہے۔ سینٹ کے موجودہ الیکشن میں انسان نما جانوروں کی جو منڈی لگی، اس کے بعد، شرافت، اخلاقیات، اصول، دیانت داری،معقولیت جیسے الفاظ وطنِ عزیز کی لغت سے خارج کر دینے چاہئیں اور اس نام نہاد جمہوریت کے سرِ عام جنازے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی خطاؤں پہ سال ہا سال سے سلاخوں کے پیچھے اسیر، انصاف کے انتظار کی سولی پہ لٹکتے قیدیوں کو ہاتھ جوڑ کے، نیز سب کچھ کر گزرنے کی کھلی چھوٹ دے کے رہا کر دینا چاہیے۔ اگلی بقرعید پہ بکروں کی منڈیاں بند کر دینی چاہئیں، اس دفعہ یہ شوق اسی ارذل مخلوق کے ساتھ پورا کیا جائے۔ کسانوں کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنی جنس ، جس کو چاہیں اور جتنے میں چاہیں فروخت کریں۔ عام آدمی کو بھی دھونس دھاندلی کے ساتھ رزق کمانے کی قانوناً (اگر اس ملک میں کوئی قانون ہے؟) اجازت ہونی چاہیے۔ اس بے کار اور بدبودار سینٹ کے ساتھ ساتھ،بدنامِ زمانہ الیکشن کمیشن کے دفتروں، اور قانون کے نام نہاد اداروں کو تالے لگا کے وہاں کوئی منافع بخش (افراد کے لیے نہیں ملک کے لیے منافع بخش) کاروبار شروع کر دینے چاہئیں۔ اب تو لگتا ہے، لالہ بسمل نے اپنے اس شعر میں کسی سیاست کار (لالہ کے نزدیک سیاست کار صرف اسمبلیوں ہی میں نہیں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، عدالتوں، تھانوں، بازاروں اور مقدس حجروں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ غرض یہ کہ جو بھی اپنے پیشے کے ساتھ زیادتی کرتا ہے، وہ اسے سیاست کار ہی کہتے ہیں) کے بارے سچ ہی کہا تھا: ایسا بد بخت ہے تذلیل پہ قانع ہی نہیں خبثِ باطن میں الگ دھاک بٹھا رکھی ہے ستم تو یہ ہے کہ سب کی آنکھوں کے سامنے پورے کے پورے ادارے نیلام ہو رہے ہیں، لوٹ مار میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھنے والے سرمایہ کار سیاست دانوں اور ان کی بدتمیز اولادوںنے اسمبلیوں کو کن ٹٹے پہلوان کا اکھاڑہ بنا رکھا ہے۔ ملک کا بچہ بچہ ان کی بے کراں کرپشن کا چشم دید گواہ ہے لیکن ہمیں تو جرم کے ٹھوس ثبوت مع مجرم کی تصاویر اور تفاصیل حوالۂ متن کے ساتھ درکار ہیں۔ دوسری جانب ایک بے جائیداد محترمہ گرما گرم اور ٹھوس ثبوت کی وڈیوز والی دکان کھولے بیٹھی ہے اور قوم ان ثبوتوں اور عدم ثبوتوں کے درمیان ادھ موئی ہوئی پڑی ہے۔ اسی کشمکش میں ہم دنیا میں انصاف کے رینک میں 124 ویں نمبر پر پورے اعتماد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ الیکشن کا سب سے بڑا رکھوالا ملزموں کو یوں پروٹوکول دے رہا ہے جیسے ابھی ابھی قیمے والا نان کھا کے آیا ہو۔ مختلف چینلز پہ پرائم ٹائم میں چلنے والے سیاسی ٹاک شوز تو ناک پہ رومال رکھ کے بھی نہیں دیکھے جاتے۔ اپنے حکیم جی تو کب کے ان کو ٹی وی چینلوں کی ناجائز اولاد قرار دے چکے ہیں۔ تازہ خبر ہے کہ اس ملک میں جعلی ادویات کی تین ہزار فیکٹریاں پوری لگن سے کام کر رہی ہیں، جن میں آدھی ہمارے سیاست دانوں کی اور آدھی ان کو ہر اچھے برے حالات میں دام فراہم کرنے والے بے دام غلاموں کی ہیں۔ سندھ کا ان میں بھی پہلا نمبر ہے، وہی سندھ جہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین تک دستیاب نہیں اور تھرپارکر میں سینکڑوں لوگ صاف پانی کی عدم فراہمی کی بنا پر بیماریوں کا شکار ہو کے مر جاتے ہیں۔ انھی چور سیاست دانوں کے نقشِ قدم پہ چلنے والوں کا یہ حال ہے کہ وطنِ عزیز کے اکیس لاکھ لوگوں کو آمدن چھپانے اور ٹیکس میں غلط بیانی کرنے پر نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں لیکن ملک میں تبدیلی لانا صرف عمران خان کا کام ہے۔ حد یہ کہ ہم اپنی اپنی پارٹیوں کے بد کردار سیاست دانوں کی حرام زدگیوں، ریشہ دوانیوں، قلا بازیوں، دھوکا داریوں کو ان کی فن کاری اور تجربہ کاری قرار دے کر تالیاں بجائے جا رہے ہیں۔ ہم یہ تک نہیں جانتے کہ انھی جعلی ادویات، کمشنوں، کک بیکس اور ہر کام میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کے پیسے انھی سیاست دانوں کی جیب میں جاتے ہیں، جس سے ضمیر خریدے جاتے ہیں۔ شاد عارفی نے سچ ہی کہا تھا: مِرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو گھِری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں تین مارچ کو ملک کی اسی لا علاج صورتِ حال کے بارے میں سوچتے سوچتے اچانک آنکھ لگ گئی، رات کو خواب میں منٹو آ گیا… سخت غصے میں لگ رہا تھا… آنکھوں سے وحشت برس رہی تھی، آتے ہی شروع ہو گیا… بد تمیز… چغد…ایجی ڈڈو… پھاتو… مائی نانکی… موچنا… بڈھا کھوسٹ… دُودا پہلوان… اصلی جن… ٹیٹوال کا کتا… شاہ دَولے کا چوہا… تانگے والے کا بھائی… اُلو کا پٹھا… سنتر پنچ… سفید جھوٹ… بُو… دھواں … سر کنڈوں کے پیچھے…ا ب کہنے کی ضرورت نہیں… مَیں نے آنکھیں ملتے ملتے اور ڈرتے ڈرتے پوچھا: منٹو میاں! طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کہنے لگا: کچھ نہیں! بس ایسے ہی اپنے بھُولے بِسرے افسانوں کے نام یاد کر رہا تھا!!!!!!