کہنے کو تو یہی کہا جاتا ہے کہ جو گڑ کھانے سے مر جائے اسے زہر دینے کی کیا ضرورت ۔اب کوئی اس محاورے کو سن کر سچ مچ کسی شخص کو گڑ دے کر مارنے کی کوشش کرے تو یہ اس کی حماقت ہی ہو گی۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کسی شوگر کے مریض کو زبردستی گڑ کھلایا جائے۔ ایک اور محاورہ ’’کان کھانا‘‘ ہے آپ کہتے ہیں میرے کان مت کھائو‘ اگر کوئی یہ سمجھ لے کہ آپ کے کان بہت لذیذ ہیں اور کوئی ان پر دانت گاڑے ہوئے ہے کچھ اسی طرح 3جولائی کی بارش کے روز ہمارے ساتھ ہوا۔ ہم نے اپنے چاروں طرف پانی کی راجدھانی تو ہم نے فوراً موبائل نکالا اور فی البدیع ایک شعر اپنی وال پر لگا دیا: ؎ کسے خبر تھی کہ ساون کی پہلی بارش میں مرا یہ دل‘ مرا لاہور ڈوب جائے گا آپ یقین کیجئے کہ اس پر کومنٹس کی آبشار گرنے لگی۔ کچھ کومنٹس بہت سخت بھی تھے۔ ممتاز راشد لاہوری نے لکھا کہ آپ نے زیادتی کی ہے۔ چند علاقے زیر آب آئے ہیں میں نے کہا محترم میں نے بھی محاورتاً لکھا ہے۔ اخبار بھی یہی سرخیاں لگائیں گے۔ محترم لالہ رخ نے ذرا سخت بات کی قوم کو گمراہ نہ کریں ادب میں تعصب نہیں ہوتا‘ میں ہر رائے کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ میرا آج کا کالم 92نیوز میں پڑھ لیں ان کا جواب آیا جو ہو بہو میں اسی طرح لکھ رہا ہوں۔ ’’سعد! میں دس سال سے آپ کو پڑھ رہی ہوں۔ وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب میں آپ کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ آئی فیشل سیاستدانوں کی حمایت کریں۔ جس طرح آپ نے زمین پھاڑ کر ادبی مقام حاصل کیا ہے اسی طرح سیاستدان صرف وہی ہیں جن کی جڑیں زمین ہیں‘‘ میں نے جواب میں عرض کیا کہ میں نے ہمیشہ شہباز شریف کی تعریف کی ہے۔ کرپشن بہر طور ختم ہونی چاہیے۔ نواز شریف کو بھارت نواز نہیں ہونا چاہیے اور انہیں بچوں سمیت اس دھرتی کے ساتھ جڑنا چاہیے‘‘ لالہ رخ نے جواب در جواب لکھا۔ شہباز کی تعریف اس قوم کا مسئلہ نہیں ہے اس قوم کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ نظام سیاست میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ریاستی ملازموں نے انتخابی سیاست کو چند خاندانوں تک محدود کر دیا ہے۔ چند زمیندار‘ جاگیردار وڈیرے‘ گدی نشین‘ ذاکر و خطیب کا طواف کرتا یہ نظام اس قوم کا اصل دشمن ہے۔ جب اس قوم کو شعور آنے والا تھا تو طاقتوروں نے تبدیلی کے نام پر وہی کیپٹل ازم کی ایجنٹ جماعت بدل کر ہم پر مسلط کر دی‘‘درمیان ریاض احمد ریاض کو شکوہ کناں ہوئے کہ آپ لوگوں نے شکوہ جواب شکوہ شروع کر دیا ہے۔ مگر قارئین، ایک صاحب رائے کی بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے محترمہ کو بار دیگر لکھا کہ ان کی باتوں سے سر مو اختلاف نہیں۔ مگر ان سے چھٹکارا پانے کا خیال ہمارے سیاستدانوں کو آخر میں کیوں آتا ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے سے بھی سیاست سیاست کھیلتے ہیں۔ آخری بات لالہ رخ نے لکھی کہ دانشور اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ ہم نے کہا تھا: سر تسلیم ہے خم‘ کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے مجھے سوشل میڈیا پر ڈائیلاگ کر کے خوش ہوتی ہے کہ مکالمے سے نئے در نکلتے ہیں۔ سب کو رائے دینے کا حق ہے پورا سچ اور پورا جھوٹ کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ یہی سیاست ہے۔ ہمیں نواز شریف اینڈ فیملی سے کوئی تعصب نہیں۔ ہم انہی کو سپورٹ کرتے تھے میں نے تو آمریت کے خلاف اتنی شاعری کی کہ سب اہل سخن ہی نہیں اہل صحافت و سیاست جانتے ہیں۔ واللہ ہم کبھی بھی مارشل لاء وغیرہ کے حق میں نہیں ہو سکتے۔ ہم تو مشرف کو ڈبل شد کے ساتھ غدار لکھنے کو تیار ہیں۔ مگر سیاستدان بھی کم قصور وار نہیں ہیں۔ وہ آمروں سے بڑے آمر ہیں۔ ایک الف سے آمر ہے اور دوسرا ع سے عامر، کام مگر ایک۔ جاگیردار تو پھر ایک طبقہ تھا مگر میاں برادران نے تو اسے ایک خاندان تک محدود کر کے رکھ دیا اور اس پر مستزاد یہ کہ کار سیاست کو کاروبار بنا دیا۔ ہم یہ بھی برادشت کر لیتے مگر صاحب ہم سے بھارت نوازی برداشت نہیں ہوتی اور آگے چلیے، آپ نے مغرب کو بھی سنگ میل بنانے کی کوشش کی۔ آپ سود کے حق میں پٹیشن لے کر گئے۔ آپ نے خاتم النبینؐ والی شق بدل کر اپنے آقائوں سے مدد طلب کرنا چاہی۔ ہم ہرگز متعصب نہیں میاں صاحب! آج اپنی آل اولاد کو پاکستان لے آئیں یہاں سے جڑ جائیں لوگ ان کے لیے جان دینے کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے۔ ایک لمحے کو سوچیے تو سہی کہ آپ کے دور میں خارجہ پالیسی کیا تھی۔ یہ پورا محکمہ آپ کی جیب میں سوتا رہا۔ داخلہ پالیسی تک بھی آپ کی نہیں تھی۔ ہم عمران خان کو کوئی ولی نہیں کہتے اس میں ایک صد ایک عیب ہونگے۔ وہ مگر کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف کھڑا ہونے والا پہلا شخص جس نے لوگوں کو شعور دیا اور پھر یہ کہ وہ انتہائی دیانتدار اور بے لحاظ ہے۔ بس یہی ہم سوچتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو بند باندھا جائے۔ ایک مرتبہ معروف کالم نگار محترمہ عامرہ احسان سے بھی میرا یہی ڈائیلاگ ہوا۔ ان کی ہر بات مدلل اور درست تھی مگر میرا ایک ہی موقف تھا کہ عمران نے بدمعاشوں کو ہاتھ ڈالا ہے جسے آج کل بدمعاشیہ کہا جاتا ہے یعنی بگڑی ہوئی اشرافیہ وگرنہ ہم نے عمران سے کیا لینا ہے۔ میں نے لکھا تھا: ایسے لگتا ہے کسی کا بھی قصیدہ لکھنا جسے خود کو ہو کسی آس پر جھوٹا لکھنا کسی کا درباری ہونا بذات خود کتنی ذلت و خواری کی بات ہے۔ پھر ہمیں تو اس کا بھی خیال ہے کہ جو میر نے کہا تھا’’اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی‘‘ ویسے میری خان صاحب سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ تو آئے تو الیکٹ ایبلز وغیرہ کی ساری خواہشات ناآسودہ ہی رہیں گی۔ جب حکمران کرپشن نہیں کرتا تو نیچے کسی کو جرأت ہو سکتی ہے۔ وہی جو نوشیرواں نے اپنے لوگوں کو مفت نمک لانے پر کہا تھا کہ اگر حکمران کسی سے مفت انڈے لے گا تو اس کے درباری مرغیاں سیخوں پر چڑھا دیں گے۔ عمران خان ہمارا آئیڈیل ہرگز ہرگز نہیں۔ اچھائی کی طرف ایک قدم کہیں یا پھر برائی کی راہ روکنے کا پہلا عمل ہے کہ بعض اوقات زہر کا علاج زہر سے کیا جاتا ہے منیر نیازی نے کتنی پر امید بات کی تھی: آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے ورنہ یہ عمر کا سفر رائیگاں تو ہے