پرائمری سکول کے زمانے کی بات ہے، ریڈیو پاکستان کے خبر نامے سے بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی تھی لیکن جب کبھی گرم موسم، بارش، آندھی طوفان کی خبر آتی تو ساتھ ہی ’’ہوا کا دبائو‘‘ کے الفاظ بھی کان میں پڑتے۔ کچھ اس طرح کی خبر ہوتی کہ ہوا کا دبائو اوپر نیچے ہونے سے بارش ہوتی ہے یا نہیں ہوتی ہے، آندھی آتی ہے یا نہیں آتی ہے۔ ہوا کیا شے ہے، اس کا پتہ تھا، دبائو کیا ہوتا ہے، یہ بھی معلوم تھا لیکن ہوا کا دبائو سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ بھلا ہوا جی کو دیکھا جاسکتا ہے نہ ہاتھ میں پکڑا جاسکتا ہے، کیسے دبائو ڈال سکتی ہے۔ ہوا ہے، اس کا تو پتہ ہی تب چلتا تھا جب وہ چل رہی ہو۔ بند ہوا کا وجود عدم وجود ایک برابر تھا۔ بہرحال، وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ ہوا کا دبائو ہوتا ہے اور اس سے بڑی تبدیلیاں بھی آتی ہیں۔ واورولے (گردباد، گھومتے چکراتے بگولے) بھی اسی سے بنتے ہیں جو اتنے طاقتور اور خود کار ہوتے ہیں کہ کوئی شے ان پر پھینکو تو پلٹ کر مارنے والے کے منہ پر لگتی ہے۔ ہم عمر لڑکوں میں کچھ ’’باخبر ذرائع‘‘ بھی ہوتے تھے۔ یہ باخبر ذرائع بتاتے تھے کہ واورولے دراصل جنوں کی بارات ہوتے ہیں۔ بعد میں یہ بھی جانا کہ بعض واورولے اتنے تگڑے ہوتے ہیں کہ آدمی بلکہ بھینس کو بھی اٹھا کردور پھینک دیتے ہیں اور خاص طور سے امریکہ میں تو ایسے واورولے بھی اٹھتے ہیں کہ پورے سموچے مکان کو اٹھا کر کہیں دور پٹخ دیتے ہیں۔ بالآخر یوں دبائو کا ہوائی ہونا ہمیں باور آیا۔ ہوا کے دبائو کی مزید طاقت ان دنوں آشکار ہورہی ہے۔ ایک ’’واورولا‘‘ اٹھتا ہے اورراتوں رات مسلم لیگ ن کے گیارہ بارہ ٹکٹ ہولڈروں سے ٹکٹ چھین کر انہیں جیپ پر سوار کردیتا ہے۔ یہ دبائو کسی اہل پر پڑتا ہے تو وہ نااہل ہو جاتا ہے۔ کسی کے تن من کے میل کی تہہ یوں چٹخا کر رکھ دیتا ہے کہ اندر سے گورا چٹا صادق و امین نکل آتا ہے۔ بعض اوقات یہ دبائو کھوئی ہوئی یادداشت بھی واپس لے آتا ہے۔ پچھلے ہفتے کی بات ہے، پانچ سال تک وزیر رہنے والے کو اچانک یاد آیا کہ چار سال پہلے ماڈل ٹائون میں بڑا ظلم ہوا تھا، چنانچہ وہ اس ظلم پر احتجاج کرتے ہوئے مسلم لیگ سے مستعفی ہو گئے۔ ہوا کا دبائو عقل و خرد کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بھی بیدار کردیتا ہے۔ لیگی امیدواروں کو اچانک پتہ چلتا ہے کہ ان کے بچوں کا شبھ بھوشیہ بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑنے میں چھپا ہوا ہے۔ ہوا کے دبائو کے بے شمار کرشمات سامنے آ گئے، بے شمار آنے والے ہیں۔ بہت لمبی کہانی ہے، ان چند سطور کو نمونے کی املا سمجھئے ورنہ قصہ زلف چلیپا کھل جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ الیکشن کمیشن نے ملتان میں مسلم لیگ کے امیدوار پر بعض افراد کے تشدد کا نوٹس لے لیا ہے۔ اس امیدوار رانا اقبال کی دکان پر کچھ نامعلوم افراد آئے اور آتے ہی دوھتڑوں اور دولتیوں پر رکھ لیا۔ اچھی طرح دھنائی کرنے کے بعد ذرا سی فرمائش کی کہ لیگ کا ٹکٹ واپس کردو اور پھر چلے گئے۔ رانا اقبال نے پریس کانفرنس میں اس کی تفصیل بیان کی۔ مسلم لیگ کے رہنما نوازشریف نے لندن سے موصوف کو فون کیا اور واقعہ کی تفصیل معلوم کرنے کے بعد اپنی پریس ٹاک میں کہا کہ ان کے امیدوار پر فلاں ادارے نے تشدد کیا ہے۔ اگلے ہی روز رانا موصوف نے ایک اوروضاحتی پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ ان پر تشدد کرنے والے محکمہ زراعت کے لوگ تھے۔ یہ قضیہ پھر بھی حل نہ ہوسکا کہ محکمہ زراعت کو ان کے ٹکٹ سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔ ٹکٹ واپس کرنے کی فرمائش کا زراعتی پس منظر کیا ہوسکتا تھا؟ شاید محکمہ زراعت والے چاہتے ہوں گے کہ سیاست ویاست چھوڑو، ہمارے ساتھ مل کر فصلوں کی کوئی نئی ورائٹی تیار کرنے میں مدد دو، مثلاً ایسی بہاریہ مکئی کی تیاری جو مئی جون ‘جولائی میں بھی کاشت کی جا سکے جسے پانی دینا پڑے نہ کھاد پھر بھی چوکھی فصل دے۔ خلاصہ یہ ہے کہ معاملہ بہاریہ مکئی کی نئی ورائٹی بنانے کا ہے۔ الیکشن کمشن کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوسکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ عمران خان کہا کرتے تھے کہ پختونخوا میں ان کی حکومت نے سرکاری سکولوں کا معیار ایسا اچھا کردیا ہے کہ لاکھوں بچوں نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے اپنا نام کٹوا کر سرکاری سکولوں میں داخلہ لے لیا ہے۔ اسی ہفتے ایک نامی گرامی اینکر نے جو چند ماہ پہلے ہی مشرف بہ عمران ہوئے ہیں، اپنے پروگرام میں پختونخوا حکومت کے سرکاری اعداد و شمار اپنے پروگرام میں پیش کئے۔ ان کے مطابق سرکاری سکولوں میں داخل بچوں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے اور مجموعاً چار فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ اتنی ہی تعداد میں پرائیویٹ سکولوں میں انرولمنٹ بڑھی ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے؟ کوئی تضاد نہیں۔ صوبے میں نجی سکولوں کے ساتھ جو سرکاری لاڈ پیار ہورہا ہے، اسی کو سامنے رکھتے ہوئے خان صاحب نے یہ بیان دیا۔ یعنی انہوں نے پرائیویٹ سکولوں کو ’’سرکاری‘‘ مان کر ان کے حسن کارکردگی کا ذکر کیا۔ ویسے صوبے کے اصلی سرکاری تعلیمی ادارے بھی کم ترقی نہیں کر رہے۔ ایک یونیورسٹی میں تو تعلیم ایسی تیز رفتار ہے کہ داخلہ لینے کے تین گھنٹے بعد ماسٹر کی ڈگری مل جاتی ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو مراد سعید سے پوچھ لے۔ ٭٭٭٭٭ نگران حکومت نے تیل ایک دم سے کتنا مہنگا کر دیا۔ سو روپے لٹر ہی ہو گیا۔ نواز حکومت آئی تھی تب بھی اسی بھائو تھا۔ پھر کم ہوتے ہوتے پچاس ساٹھ کے درمیان آ گیا۔ وہ گئی تو لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو والا معاملہ ہورہا ہے۔ سبھی جماعتوں نے اس اضافے کی مذمت کی ہے سوائے تحریک انصاف کے۔ اس نے کہا ہے کہ اس اضافے کی ذمہ دار نوازلیگ کی حکومت ہے جسے گئے ہوئے بھی دو مہینے سے زیادہ ہو گئے۔ یوں تحریک انصاف نے نگران حکومت کو گرین سگنل دے دیا ہے کہ جو بھی تباہی مچانی ہے، بے دھڑک مچائو، الزام تو ہم نے نواز حکومت پر ہی دھرنا ہے۔ تیل سے پہلے ڈالر مہنگا ہوا۔ اسحاق ڈار نے باندھ کر رکھا تھا، جونہی حکومت غیر مستحکم ہو گئی۔ ڈالر کی بندش ڈھیلی ہو گئی اور اب سنتے ہیں کہ جلد ہی دو سو روپے کا ہو جائے گا۔ مہنگائی کا سونامی غربت کے ساحل سے ٹکرا رہا ہے۔ آصف زرداری نے خبرداری دی ہے کہ عدم استحکام الیکشن کے بعد اور بڑھے گا۔ انصاف پسند اینکر پرسن وسیع تر انتشار کی خوشخبریاں سنا رہے ہیں۔ اقتصادی حوالے سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں پکا ہو گیا۔ بلیک لسٹ میں ڈالنے کی تیاری ہے۔ پانچ سال پہلے بھی پاکستان کا نام گرے لسٹ میں تھا۔ نواز حکومت نے نکلوا دیا۔ ان کی یہ حرکت ’’قومی مفاد‘‘ کے خلاف سمجھی گئی۔ اب قومی مفاد کے پوبارہ ہیں، مزید پوبارہ ہونے کی امید یقینی ہے۔ قوم کو قومی مفاد پر قربان کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔