بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی طویل علالت کے بعد گزشتہ ہفتہ دہلی میں چل بسے۔ و ہ تین بار وزیر اعظم رہے اور غالباً پاکستان کا تین بار دورہ کرنے والے واحد بھارتی لیڈر بھی تھے۔ گو کہ ان کا شمار ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اعتدال پسند لیڈروں میں ہوتا ہے، مگر بتایا جا تا ہے کہ بی جے پی اور اسکی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) نے باضابط ایک منصوبہ کے تحت ان کو کانگریس اور دیگر سوشلسٹ لیڈروں کے مقابل ایک مکھوٹہ کی طرح استعمال کیا، تاکہ پاور حاصل کرکے شدت پسند نظریہ کو پروان چڑھایا جاسکے۔ میں نے پہلی بار 1991ء میں واجپائی کو روبرو دیکھا۔ دہلی کے وسط میں نظام الدین کے علاقہ میں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑا تھا‘ میں ایک نیوز و فیچر ایجنسی میں بطور انٹرن کام کر رہا تھا۔ حکم ہوا کہ فساد کور کرنے کیلئے اپنے ایک سینئر کا ساتھ دینے کیلئے اس علاقہ کی طرف کوچ کروں۔ اس علاقہ میں ایک نالہ مسلم اور ہندو علاقوں کو جدا کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور چار افراد پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ پریس کا کارڈ چیک کرکے پولیس والے آگے جانے دے رہے تھے۔مسلم علاقوں سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ تبلیغی جماعت کی بنگلہ والی مسجد اور مزار غالب کے سامنے والی سڑک پر تازہ خون کے نشانات تھے ۔ درگاہ حضرت نظام الدینؒ، امیر خسرو، عبد الرحیم خان خاناں، مغل بادشاہ ہمایوں کی آرام گاہوں کی شکل میں مسلمانوں کی شان و شوکت کی علامت یہ علاقہ کسمپری کی دہائی دے رہا تھا۔ درگاہ کی طرف جانے والے راستے پر مکانوں کی ادھ کھلی کھڑکیوں کے پیچھے خوف و ہراس سے پر آنکھیں ہمیں تک رہی تھیں۔ بستی کے اطراف وقف کی خاصی زمین ہے، جس پر قبرستان، کئی مساجد اور درگاہیں موجود ہیں۔چونکہ بستی کے ہندو مکینوں کو مردے جلانے کیلئے خاصی دور دریائے جمنا کے کنارے جانا پڑتا تھا، اسلئے کئی دہائی قبل درگاہ کے سجادہ نشین پیر ضامن نظامی نے نالے سے متصل ایک قطعہ ہندوئوں کو شمشان کیلئے عطیہ کیا تھا۔ اب ویشو ہندو پریشد اور دیگرہندو تنظیمیں اس قطعہ میں نالے کے اس پار قبرستان کی وسیع و عریض اراضی شامل کرکے اس کی حد بندی کرکے اسپر عمارت بنا رہی تھیں۔ جس پر مسلمانوں کے اعتراض کی وجہ سے فساد پھوٹ پڑا تھا۔ فساد کور کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ نالہ کو پار کرکے دیکھا کہ کرفیو کی دھجیاں اڑی ہوئی تھیں۔ ایک جم غفیر پولیس کی بھاری موجودگی میں مسلمانوں کے مکانوں پر شدید سنگ بار ی کرتے ہوئے اشتعا ل انگیز نعرے بلند کر رہا تھا۔ شمشان کے پاس مشرقی دہلی سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ بینکٹھ لال شرما عرف پریم مجمع کو اور اکسا رہے تھے۔ درگاہ کا گنبد یہاں سے نظر آرہا تھا اور ان کا اعتراض تھاکہ اس کے اوپر جو سبز جھنڈا لہرا رہا ہے، وہ پاکستانی پرچم ہے ا و راسکے اترنے تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔معلوم ہوا کہ پاس کے ایک مکان میں اٹل بہاری واجپائی اور بی جے پی کے ایک اور لیڈر مدن لال کھورانہ ایک میٹنگ میں مصروف ہیں۔ گھنٹہ بھر کے بعد لیڈران نمودار ہوئے۔ بھیڑ درگاہ کی طرف اشارہ کرکے پھر نعرے لگانے لگی۔ واجپائی نے مائک سنبھال کر کہا کہ یہ اسلامی جھنڈا ہے اور اسکا ایک ہی رنگ ہے۔ جبکہ پاکستانی پرچم د و رنگی ہوتا ہے۔جب وہ گاڑی کی طرف جارہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ نالہ کے دوسری طرف تو سخت کرفیو نافذ ہے اور لوگ بھی وہیں ہلاک ہوئے ہیں۔ آخر وہ نالہ پر موجود بھیڑ کو پتھرائو کرنے اور اشتعال انگیز نعرے لگانے سے منع کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے کہا کہ نوجوان فساد بھی اسی طرف سے شروع ہوا۔ اب جو کچھ ہورہا ہے وہ رد عمل ہے۔ اس طرف کے لوگوں (مسلمانوں) کو یہ بات جان لینی چاہئے۔ یہ ان کا اعتدال پسند چہرہ تو نہیں تھا۔ مگر شاید انہوں نے محسوس کیا کہ میں مسلمان ہوں اور اب اس سوال کے بعد بھیڑ مجھے نشانہ بنائے گی۔ انہوں نے اپنے محافظ کو اشارہ کرکے مجھے نالہ کے دوسری طرف لیجانے کیلئے کہا۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل رام مندر کی تحریک کے دوران ان کی تقاریر کچھ کم اشتعال انگیز نہیں ہوتی تھیں۔ اپنی پارٹی کے سخت گیر نظریہ کی تشہیر اور دوسری طرف اپنی اعتدال پسند امیج کو برقرار رکھنے کیلئے وہ قطبین کے بیچ پنڈولم کی طرح جھولتے تھے۔مگر بعد میں دہلی میں رپورٹنگ کرتے ہوئے یہ ادراک تو ہوگیا کہ بی جے پی کے دیگر لیڈروں کی نسبت ان میں مروت اور گرم جوشی موجود ہے۔ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے سے قبل پریس کلب آف انڈیا سے متصل ان کے گھر پر ہر سال ایک بھر پور پارٹی ہوتی تھی، جس میں کباب و بریانی بنانے والے خصوصی طور پر لکھنؤ سے بلائے جاتے تھے۔ وہ خاصے خوش خوراک بھی تھے۔ بیرونی دوروں کے دوران اچھے ریسٹورنٹ ڈھونڈ نکال کر پورے وفد کی دعوت کرتے تھے۔ چونکہ پاکستان میں اب سیاست نئی کروٹ لے رہی ہے۔ واجپائی کی سیاست کے چند واقعات میں شاید سیاسی لیڈروں اور تجزیہ نگاروں کیلئے سبق کا سامان ہو۔ سیاست میں وہ ذاتی حملوں کو سخت نا پسند کرتے تھے۔ 2004ء کی انتخابی مہم کے دوران ان کے دست راست پرمود مہاجن نے مہاراشٹرہ کے ایک دور افتادہ علاقہ میں تقریر کرتے ہوئے کانگریس صدر سونیا گاندھی پر ذاتی رکیک حملے کئے ۔ اگلے دن مہم ادھوری چھوڑ کر مہاجن دہلی میں سونیا گاندھی کے گھرپر حاضر ہوکر معافی مانگ رہے تھے اور بعد میں اپنے گھر پر میڈیا کو بلا کر صفائی دے رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ واجپائی نے ان کو سخت پھٹکار لگائی تھی۔ 1991ء میں جب نرسمہارائو وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ابتر ہوتی ہوئی اقتصادی صورت حال کو سنبھالنے کیلئے ایک ٹیکنو کریٹ من موہن سنگھ کو وزیر خزانہ بنایا گیا۔ انہوں نے جواہر لال نہرو کی بند معیشت کو پس پشت ڈال کر آزاد معیشت کی داغ بیل ڈالی اور اصلاحات کا بیڑا اٹھایا ، جس کی وجہ سے وہ اکثر اپوزیشن کا نشانہ بنتے تھے۔ چونکہ ٹیکنوکریٹ تھے، اسلئے پارلیمنٹ میں تنقید و ہنگامہ کے بعد وزیر اعظم کو استعفیٰ سونپتے تھے، جو وہ اسی وقت نامنظور کرتے تھے۔ ایک دن جب انہوں نے کھاد پر سبسڈی کم کرنے کا اعلان کیا، تو گویا ایک طوفان آگیا۔ تنقید سے پریشان من موہن سنگھ خاصے پرپریشان تھے تو واجپائی ، جو لیڈر آف اپوزیشن تھے ، نے ان کوپارلیمنٹ میں اپنے چیمبر میں بلایا۔ من موہن سنگھ کے مطابق واجپائی نے انکو کہا کہ ’’ اب آپ سیاست میں ہیں، اسلئے اپنی کھال موٹی کرلیں۔ بات بات پر اور تنقید پر استعفیٰ نہ دیں۔ ہمارا کام آپ کی مخالفت کرنا اور نکتہ چینی کرنا ہے ، یہ ہماری سیاست ہے، مگر ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کی خاطر آپ ثابت قدم رہیں اور جو اقدامات آپ کر رہے ہیں وہ کرتے رہیں۔‘‘ بعد میں معلو م ہوا کہ من موہن سنگھ کو سیاست کا یہ ابتدائی پاٹھ پڑھانے کیلئے نرسمہا رائو نے ہی واجپائی سے درخواست کی تھی۔(جاری) اسی طرح مارچ 2003ء میں جب امریکی صدر جارج بش نے عراق پر فوج کشی کی تو ان کا اصرار تھا کہ بھارت بھی برطانیہ، آسٹریلیااور پولینڈ کی طرح فوجی تعاون دے۔ بی جے پی اور حکومت کے اندر کئی لیڈران اس کے حق میں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جوہری دھماکوں کے بعد بھارت پر جواعلیٰ تکنیک حاصل کرنے پر پابندیا ں عائد ہیں، عراق میں امریکہ کی معاونت کرکے وہ ختم ہوسکتی ہیں۔پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس جاری تھا اور اسپر خاصی بحث ہو رہی تھی۔ جب پارلیمنٹ 22دن کیلئے وقفہ میں چلی گئی تو اسی دوران واجپائی نے وزیر اعظم ہاوٗس میں بائیں بازو کے لیڈران کو ناشتے پر مدعو کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے موجودہ جنرل سیکرٹری سیتا رام یچھوری کے مطابق واجپائی نے ان سے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ وہ اپنی پارٹی ، فوج اور ملک کے اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کے دباوٗ میں ہیں کہ عراق میں فوج بھیج کر امریکی انتظامیہ سے مراعات حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے۔ مدعو لیڈروں نے اسکی کھل کر مخالفت کی۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے طعنہ دیا کہ کانگریس کی طرح وہ بھی اب مخالفت ڈرائنگ رومز اور میڈیا میں ہی کرتے ہیں۔ بقول یچھوری یہ ایک پیغام تھا سڑکوں پر آنے کا۔ تاکہ واجپائی کو امریکہ کو ٹالنے کیلئے بہانہ ملے۔ بس پھر کیا تھا، مختلف شہروں میں امریکی حملے اور بھارت کی متوقع مدد کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اپریل کے پہلے ہفتہ جب پارلیمنٹ کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو عراق میں امریکی مداخلت کے خلاف ایک متفقہ قرار داد منظور کی گئی۔ 1995ء میں نرسمہا رائو کے آخری دنوں میں بھارتی حکومت روس کے ساتھ جدید سخوئی جنگی طیارے خریدنے کیلئے مذاکرات کررہی تھی۔ قیمتوں پر اتفاق رائے سے قبل ہی حکومت نے 800ملین ڈالر روسی حکومت کو ٹرانسفر کر دے ۔ یہ ایک بڑا اسکینڈل تھا۔ اسی دوران کانگریس حکومت کا خاتمہ ہوا اور اسکی حمایت سے یونائیٹڈ فرنٹ حکومت پہلے دیو ی گوڑا اور پھر اند ر کمار گجرال کی قیادت میں اقتدار میں آئی۔ قریباً ایک ماہ تک بی جے پی نے اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں خوب اچھالا اور تحقیق کی مانگ کی۔ لگتا تھا کہ یہ نیا بوفورس توپ اسکینڈل ہے، جس کی وجہ سے 1989ء میں راجیو گاندھی کی حکومت چلی گئی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد بی جے پی نے اسکو اچھالنا بند کیا۔ تجسس کے مارے میڈیا نے بھی خوب ہاتھ پیر مارے، کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ واجپائی جو لوک سبھا میں اپو زیشن لیڈر تھے اور جسونت سنگھ جو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر تھے نے لب سل لئے تھے۔ آخر کئی سال بعد یونائیڈ فرنٹ حکومت میں وزیر دفاع ملائم سنگھ یادو نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ان دونوں لیڈران کو رات کے وقت جب میڈیا سویا ہوا تھا ، وزارت دفاع کے صدر دفتر مدعو کیا تھا اور اس سودے کی سبھی فائلیں اور مذاکرات کی سبھی تفصیلات اور نوٹس ان کو پڑھنے دیئے تھے۔وہ رات کے آخری پہر تک وزارت دفاع میں رہے۔ معلوم ہوا کہ روسی صدر بورس یلسٹن نے درخواست کی تھی کہ سخوئی کا کارخانہ کئی برسوں سے ملازموں کی تنخواہیں نہیں دے پا رہا ہے اور یہ ان کے ہی حلقہ انتخاب میں ہے۔ چونکہ روس میں بھی انتخابا ت ہو رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت 800ملین ڈالر ٹرانسفر کرتا ہے تو ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں ملیں گی اوران کو بھی دوبارہ انتخاب میں مدد ملے گی۔ جب تک سودے کی دیگر کارروائی مکمل ہوتی ہے، یہ کارخانہ جہاز بنانے کا عمل شروع کریگا اور یہ رقم حتمی پرائس میں شامل کی جائیگی۔ واجپائی اب وزیر اعظم بن چکے تھے، ایک غیرملکی دور ہ کے دوران ایک سینئر صحافی نے ان سے اس بار ے میں جاننا چاہا، تو ان کا برجستہ جواب تھا ، ’’حکومتیں آتی جاتی ہیں، پارٹیاں بنتی بگڑتی ہیں ۔مگر ملک کا مفاد ان سب سے اوپر ہوتا ہے۔ جانکاری حاصل ہونے کے بعد میں پارٹی کیلئے ملکی مفاد کو دائو پر نہیں لگا سکتا تھا۔‘‘ واجپائی ابتداء میں صحافت سے وابستہ تھے اور آر ایس ایس کے آفیشل آرگن پنچ جنیہ کے مدیر بھی تھے ، اسلئے خاص طور پر ہندی کے صحافیوں کے ساتھ انکی گاڑی چھنتی تھی۔ مئی 1998ء میں جوہری دھماکوں کے بعد اسی سال ستمبر میں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے کیلئے پہلی بار نیو یارک میں بین الاقوامی برادری سے روبرو تھے۔ اپنے پیشرئوں اور جانشینوں کے برعکس واجپائی کے کام کرنے کا طریقہ خاصہ معتدل ہوتا تھا ۔ اپنی بساط سے زیادہ کام کرنا انکو گوارہ نہیں تھا۔ عام طور پر لنچ کے بعد دوپہر چار بجے تک وہ کوئی میٹنگ نہیں رکھتے تھے اور رات 8بجے کے بعد آرام کرنے چلے جاتے تھے۔ ان کے اس شیڈول کی وجہ سے انکے غیر ملکی دورے بھی تین دن کے بجائے پانچ دن رکھے جاتے تھے، جس کی وجہ سے وفد کے ساتھ آئے افسران اور میڈیا کو کھل کر شہر دیکھنے اور شاپنگ کا موقعہ ملتا تھا۔ نیویارک کے اس دورہ کے دوران واجپائی کی ملاقات اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ بھی طے تھی۔ نیتن ہاہو بھی پہلی بار 1996ئمیں اقتدار میں آئے تھے۔ یہ بھی ایک دلچسپ امر ہے کہ تل ابیب اور دہلی میں سخت گیر دائیں بازوعناصر ایک ہی وقت اقتدار میں آتے ہیں۔ خیر جس وقت واجپائی کی ملاقات نیتن یاہو سے طے تھی، بھارتی مشن نے میڈیا کیلئے شہر کے دورہ کا پروگرام ترتیب دیا تھا۔ مگر ہندی اخبار کے ایک ایڈیٹر نے اپنا ایک علیحدہ پروگرام بنایا تھا۔ جب وہ ہوٹل کی لابی سے باہر آرہے تھے، اسی وقت واجپائی ہوٹل میں داخل ہورہے تھے۔ یہ ایڈیٹر صاحب ان کے پرانے معتمد رہ چکے تھے۔ واجپائی نے ان کو دیکھ کر خاصی گرم جوشی دکھائی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو ملاقات کے کمرے میں لے کر ان سے محو گفتگو ہوگئے۔ افسران ابھی ان ایڈیٹر صاحب کو بھگانے کی ترکیب سوچ ہی رہے تھے، کہ نیتن یاہو اپنے وفد کے ہمراہ داخل ہوگئے۔ واجپائی سے ہاتھ ملاکر اسرائیلی وزیر اعظم نے انکو جوہری دھماکوں کی مبارکباد دی اور گلے لگاتے ہوئے کہا، کہ مسٹر پرائم منسٹر ، ہم دونوں جوہری طاقت ہیں، کیوں نہ (معانقہ کرتے ہوئے) اسطرح ہم پاکستان کو جکڑ کر کرش کریں۔(Mr. Prime Minister. We are now both nuclar power. Let us crush Paksitan like this) اسرائیل ابھی بھی ایک اعلانیہ نیوکلیئر پاور نہیں ہے۔ ایک صحافی کے سامنے اسطرح کا اعتراف ۔۔بھارتی وزارت خارجہ کے افسران خاصے اضطراب میں تھے۔ واجپائی نے ایڈیٹر صاحب کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا ہوا تھا۔ تبھی ایک جہاندیدہ افسر نے انکو بتایا کہ ان کی ایک ضروری کال آئی ہے۔ اسی بہانے ایڈیٹر کو باہر لیجاکر دروازہ بند کرادیا۔ بعد میں وزارت خارجہ اور اسرائیلی افسران نے اصرار کے ساتھ تاکید کی کہ یہ گفتگو کہیں بھی اور کسی بھی صورت میں میڈیا میں نہ آنے پائے۔ ان کا ایک اور کارنامہ یہ تھا کہ اپنے قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا کو ایک نئی اسٹریٹیجک سوچ دینے ، ملک کو ماسکو کی گود سے نکال کر اور واشنگٹن کی دہلیز پر کھڑا کرنے کیلئے پوری آزادی دی۔ 1998ئمیں جب بی جے پی کی قیادت والا محاذ اقتدار میں آیا تو دہلی کے سفارتی حلقوں میں کشیدگی اور تنائو کا ماحول واضح طور پر محسوس کیا جارہا تھا۔ صورت حال اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئی جب بھارت نے مئی 1998ئمیں نیوکلیائی تجربہ کیا۔ نیوکلیائی تجربہ کے فوراََ آنجہانی مشرا کی قیادت میںبیک چینل سرگرمیوں کا زبردست سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کوبہتر کرنے کی کوششیں تیز ہوئیں حتی کہ کشمیر میں آزادی پسند اور جنگجو قیادت سے بھی رابطہ قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ مشرا کو ان کی اس کاوش میں مدددینے کے لئے را کے سابق سربراہ اور کشمیرکے معاملے میں جہاں دیدہ افسر اے ایس دلت کو دوبارہ پی ایم او میں بھرتی کیا گیا ۔ نیوکلیائی تجربات کے بعد مشرا وزیر اعظم واجپائی کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا نا چاہئے۔اور یہ بھارت کو بین الاقوامی طور پر الگ تھلک پڑجانے سے بچانے کا واحد علاج تھا۔جس کے نتیجے میں واجپائی کا لاہور کا تاریخی دورہ عمل میں آیا۔ اپنی نجی میٹنگوں میں مسٹر مشرا اکثر و بیشتر اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ وہ اور واجپائی بھارت اور پاکستان کے درمیان امن مساعی کو ایک ٹھوس راہ پر لانے بلکہ دونوں ملکوں کے مابین حل طلب بہت سارے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے لیکن پہلے کرگل کی جنگ اور پھر پارلیمنٹ پر حملہ نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔انہیں اس بات کا بھی پورا علم تھا کہ دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں امن کی کشتی کوڈبونے کی اپنی کوششوں سے باز نہیں آئیں گی۔ جس وقت کرگل کا بحران اپنے عروج پر تھا اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوںکا جائزہ لے رہی تھیں پی ایم او کے ایک اور سابق افسر پی این دھر(جو آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے انتہائی معتمد سمجھے جاتے تھے) نے برجیش مشرا کو اپنے گھر پر ڈنر پر مدعو کیا۔سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل اشوک بھان حریت کانفرنس کے رہنما(مرحوم) عبدالغنی لون کو اپنے ساتھ اس ڈنر پر لے گئے۔ مشرا نے اسے ایک قیمتی موقع سمجھتے ہوئے حریت کے لیڈروں کے ساتھ اپنا پہلا رابطہ قائم کیا۔کئی برسوں کے بعدجب دھر سے اس ڈنر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ ہم نے کافی احتیاط کوملحوظ رکھا تھا‘ ہمیں اس بات کا اندازہ تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اس وقت اپنے ہی مسائل میں الجھی ہوئی ہیںاو ر انہیں اس ڈنر کی مہک نہیں لگ سکے گی کہ اسے ناکام بناسکیں۔ایسا ہی ہوا۔کسی کو اس میٹنگ کی بھنک نہیں لگی ۔ اس کا مثبت نتیجہ یہ برآمد ہوااگلے کئی برسوں میں اس کے تعمیری اثرات دکھائی دئے۔ نومبر 2000ئمیں کشمیر میںفوج کی طرف سے رمضان میں عارضی جنگ بندی‘ اس سے قبل حزب المجاہدین کے اعلی کمانڈروں کے ساتھ گفتگو کی کوشش اور اس کے علاوہ نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کی حریت لیڈروں کے ساتھ بات چیت جیسے اہم واقعات اس ڈنر کے نتیجے میں عمل میں آئے۔لیکن پارلیمنٹ پر حملہ اور برصغیر کی سیاسی صورت حال کی وجہ سے ان میں سے بیشترپیش رفت ادھوری رہ گئی۔ دھر کی رہائش گا ہ پر مذکور ہ ڈنر سے واپس لوٹتے وقت برجیش مشرا نے کہا تھاکہ ہم کشمیری لیڈروں کے ساتھ معاملات طے کرسکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک نجی محفل میں کافی عرصے کے بعد برجیش مشرا سے جب اس میٹنگ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ کئی باتوں میں لون صاحب سے متفق تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کے ساتھ معاملات طے کئے جاسکتے ہیں۔ ان کے مشورے پر ہی ہم نے حریت لیڈروں کو پاکستان اور دنیا کے دیگر ملکوں میں جانے کی اجازت دی تاکہ وہ بھی امن کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرسکیں۔ پاکستان کے ساتھ امن مساعی او رمسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں واجپائی اور مشرا کے اپنے مقاصد تھے۔ ایک تخلیقی اسٹریٹیجک سوچ رکھنے والے ان دونوں اشخاص نے دنیا میں بھارت کی برتری قائم رکھنے کے لئے کئی مخصوص اہداف مقرر کئے تھے اور ان کا یقین تھا کہ اگر انکی حکومت یہ اہداف حاصل کرلیتی ہے تو رہتی دنیا تک ان کا نام تاریخ میںسنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔ شاید بھارتی تاریخ کے اوراق میں اشوک اور اکبر کے بعدواجپائی کا ہی ذکر ہوگا۔ ان اہداف میں بھارت کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل کرنا‘ نیوکلیائی کلب کا ممبر بننااور2025ء تک بھارت کو ایک عالمی اقتصادی طاقت کے طور پر منصہ شہود پر لانا شامل تھا۔اور ان کو یہ ادراک ہوگیا تھا کہ ان تمام اہداف کا راستہ پاکستان او رکشمیر سے ہوکر ہی گزرتا ہے۔ اس لئے وہ پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے علاوہ اندرون ملک پرامن اور محفوظ ماحول پر زور دیا کرتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ چین نے اقتصادی شعبے میں جو برتری قائم کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے بیشتر پڑوسی ملکوں کے ساتھ سرحدی تنازعات کو بڑی حدتک حل کرکے امن کو یقینی بنایا ہے۔اس لئے اگر اقتصادی برتری حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے ساتھ امن و سکون کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ ان بڑے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اگر کشمیر یا پاکستان کے سلسلے میں تھوڑی بہت کسی حد تک لچک کا مظاہرہ کیا جائے تو ان کے قدم کی بھارتی مڈل کلاس اور سخت گیر عناصر شاید مخالفت نہیں کریں گے جو پاکستان اور کشمیر کے لئے معمولی سی بھی رعایت دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔ اسی ضمن میں کئی نئے آئیڈیاز سامنے آئے اور خطے کے بجائے عوام پر مرکوز پالیسی کی ایک نئی اصطلاح سامنے آئی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب یورپ بھی اپنی اقتصادی بہتری کے لئے اپنے سیاسی تنازعات کو سرحدوں میں کسی تبدیلی کے بغیر نئے انداز میں تیزی سے حل کررہا تھا۔نیوکلیائی تجربات کے فوراََ بعد کئی بیک چینل کافی سرگرم ہوگئے ۔ ان میں آر کے مشرا اور نیاز اے نائک بہت مشہور ہوئے۔ پاکستانی مصنف شجا ع نواز نے اپنی کتابCrossed Swords میں اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ سرتاج عزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ واجپائی جی نے کشمیر کے سلسلے میں معاہدہ کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے جسونت سنگھ کوکام پر لگایا ‘ دونوں نے سری لنکا کے نوارا ایلیا میں مارچ 1999 میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات بالکل ذاتی نوعیت کی تھی جو ایک جھیل کے کنارے ہوئی ۔ ملاقات کے وقت کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا۔ اس ملاقات میں مختلف امور پر کھل کر باتیں ہوئیں۔ ان امور کا ذکر کیا گیا جو ایک دوسرے کو ناقابل قبول ہیں اور ان امور پر بھی باتیں ہوئیں جن پر دونوں متفق ہوسکتے تھے۔دونوں آنے والے دنوں میں بھی اس سلسلے کو برقرار رکھنے پر رضامند ہوگئے لیکن کرگل کی جنگ اور پھر بی جے پی حکومت کے خاتمے نے سارا معاملہ بگاڑ دیا ۔ عزیز کہتے ہیںکہ جب کرگل جنگ کے دوران وہ دہلی پہنچے اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملے تو واجپائی جی نے ان سے کہا تھاکہ’’ سرتاج صاحب یہ آپ نے کیا کردیا‘‘۔ اس کے باوجو اٹل بہاری واجپائی نے تمام تر مخالفت کے باوجوداسلام آباد کا دورہ کیا۔ جس کے نتیجے میں 6جنوری 2004 کا تاریخی مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔جس کی بنیاد پر کانگریس کی قیادت والی موجودہ حکومت بھی امن مساعی نے بھی آگے بڑھایا۔ بتایا جاتا ہے کہ جب 22مئی 2004ء کونئے وزیر اعظم من موہن سنگھ حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر پہنچے تو ان کی ٹیبل پر پیشرو واجپائی کے ہاتھ سے لکھا ایک نوٹ تھا۔ اس میں واجپائی نے ان سے درخواست کی تھی کہ ان کی حکومت کے طرف سے شروع کئے گئے چار پروجیکٹوں کو ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر جاری رکھیں۔ ان میں پاکستان کے ساتھ شروع کی گئی امن مساعی، امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیٹجک پارٹنرشپ کا معاہدہ، ہائی وے کا جال بچھانے کا منصوبہ اور دریائوں کی انٹر لنکنگ یعنی باہم مربوط کرنے کا منصوبہ شامل تھا۔ من موہن سنگھ کی کانگریسی حکومت نے دریائوں والے منصوبہ کو سست کیا، مگر دیگر امور پر تسلسل برقرار رکھا۔ پاکستان کے ساتھ مساعی لائن آف کنٹرول سے راہداری کی اجازت اور بعد میں پرویز مشرف کے فارمولہ کی بنیاد بنی۔ امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیٹجک معاہدہ نیوکلیئر ڈیل کا محرک بنا۔ پاکستانی اور کشمیری امور کے ماہر اے جی نورانی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ خود بھارتی آئین میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے معاہدہ کی گنجائش ہے لیکن اس کے لئے جس سیاسی دانش مندی اور جرأت کی ضرورت ہے وہ موجودہ حکمرانوں میں نہیں ہے۔بہر حال اس سیاسی دانش مندی اور جرات کا ایک ہلکاسامظاہرہ اٹل بہاری واجپائی اور انکے دست راست برجیش مشرا نے کرنے کی کوشش کی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے واجپائی کے تئیں اپنی عقیدت دکھانے کیلئے تقریباً چار کلومیٹر تک ان کے آخری سفر میں پارٹی آفس سے شمشان تک پیدل مارچ کیا۔جو یقینا وزیر اعظم کیلئے ایک بڑا رسک تھا۔ مگر واجپائی کے تئیں اس سے بہتر خراج عقیدت یہی ہوسکتا ہے کہ ہزاروں بے گناہ اور معصوم افرادکو مزیدآگ کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے سرحد کے دونوں طرف کے عوام کے لئے امن کی راہیں ہموار کی جائیں اور دیرینہ تنازعات کے لئے کوششوں کو تیز کیا جائے۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میںمری بات