تو بات موہنجو داڑو کے کھنڈروں میں سے برآمد ہونیوالے ’’گرینڈ پریسٹ‘‘ کے کھمبے کی ہو رہی تھی جس نے اپنے شانوں پر سندھی اجرک اوڑھ رکھی ہے۔ اجرک اور سندھی ٹوپی سندھ کی ثقافت اور قدیم رہن سہن کی ترجمان ہیں اور میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ میں نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے سندھی ٹوپی پہنی ہو اور وہ اچھا لگا ہو۔ سر پچکا ہوا سا لگتا ہے اور اس کے باوجود سندھی اپنی ٹوپی کی شان میں خصوصی دن مناتے ہیں اور میں یہ بھی ہمیشہ کہتا ہوں کہ میں نے آج تک کوئی ایسا شخص بھی نہیں دیکھا جس نے اجرک اوڑھی ہو اور وہ یکدم اس پہناوے سے خوش شکل اور باوقار نہ ہو گیا ہو۔ جب مجھے اور میری بیگم کو حکومت چین نے سنکیانگ کے سرکاری دورے کے لیے مدعو کیا تو کنڈیارو کے جمیل عباسی نے مجھے درجن بھر اجرکیں بھجوا دیں کہ انہیں اہل سنکیانگ کو سندھ کی جانب سے پیش کر دیجیے گا۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ اس تحفے کی کتنی پذیرائی ہوئی بلکہ جب میں نے آخری اجرک اپنی مترجم اور ہمہ وقت ہم سفر چینی خاتون جوائے کو پیش کی اور وہ عام حالات میں بس یونہی سی لگتی تھی‘ اجرک اوڑھتے ہی تقریباً خوش شکل سی ہو گئی۔ آج سے تقریباً چھتیس برس پیشتر جب میں نے گلبرگ میں اپنا پہلا چھوٹا سا گھر تعمیر کیا تو برخوردار فضل حیات جو کہ صر ف گورنر ہائوسوں اور عالی شان رہائش گاہوں کی اندرونی آرائش کرتا ہے کہنے لگا’’مُس چاچا‘‘میں آپ کے گھر کی انٹیریئر ڈیکوریشن کروں گا‘ تو میں نے کہا کہ بچے میرے پاس تو گھر میں بجلی کے بلب لگانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ قرض جتنا لے سکتا تھا لے چکا تو میں اس اندرونی آرائش کی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس پر فضل نے لہک کر کہا ‘مس چاچا‘ آپ مجھے صرف تین سو اجرکیں مہیا کر دیجیے باقی سب کام میرے ذمے۔ ان دنوں جو کوئی مہمان آتا لائونج میں داخل ہوتا تو دنگ رہ جاتا۔ تمام دیوراریں ‘ گولائیاں اور کھڑکیوں کے پردے سب کے سب اجرک کی سجاوٹ سے سجے ہوئے‘ بلکہ شائد مصطفی قریشی نے کہا تھا کہ تارڑ صاحب آپ نے تو اپنے گھر کو سندھ بنا دیا ہے۔ اچھا میں نے یہ تفصیل صرف ایک ناقابل یقین ذاتی تجربے کے حوالے سے بیان کی ہے میرا خیال تھا کہ میں اس اجرکی آرائش کو دیکھ دیکھ کر اکتا جائوں گا ۔اجرک کی مہندی رنگ آرائش اور گل بوٹوں کو برس ہا برس تکتے بیزار ہو جائوں گا اور ایسا ہرگز نہ ہوا۔ دس برس تک ہر سویر جب میں اپنے لائونج میں داخل ہوتا تو اجرک کے رنگ اور گل بوٹے یوں دکھائی دیتے جیسے میں زندگی میں پہلی بار اس عجوبہ آرائش کو دیکھ رہا ہوں۔ میں کبھی اسے دیکھ دیکھ کربور نہ ہوا۔ اکتایا نہیں اور تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ اگر موہنجو داڑو کے زمانوں سے آج کے زمانوں تک اجرک کے رنگ اور آرائش وہی چلی آتی ہے تو صرف اس لیے کہ یہ ہر دور میں آنکھوں کو بھلی لگتی رہی ہے۔ اس کے رنگوں اور سجاوٹوں کو اس دھرتی نے پسندیدگی کی سند عطا کی ہے۔ یہ پنجاب کا کھیس ہو‘ طرّے دار پگڑی ہو‘ بلوچستان کی گھیرے دار شلوار ہو‘ چترال کی ٹوپی ہو یا نگر اور ہنزہ کے اونی چوغے ہوں یا پھر لوک گیت ہوں۔ رسمیں اور رقص ہوں‘ خوراکیں ہوں۔ اگر یہ سب آج تک پسندیدہ ہیں تو صرف اس لئے کہ دھرتی کی کوکھ میں سے پھوٹے ہیں۔ درآمد شدہ نہیں ہیں ۔ہڑپہ کے بہت ترتیب شدہ میوزیم کے شو کیسوں میں جھانکتے ہوئے میں نے ٹیپو رانا سے پوچھا کہ میوزیم ہڑپہ میں سے برآمد ہونے والے آثار کا ہے تو اس میں موہنجو داڑو کی نشانیاں کیوں نمائش کی گئی ہیں تو انہوں نے جو میں جانتا تھا اسے بیان کیا کہ تارڑ صاحب۔ برصغیر کی قدیم تاریخ ہمیشہ سے ’’ہڑپہ تہذیب‘‘ کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے چنانچہ موہنجو داڑو بھی ہڑپہ تہذیب کا نمائندہ ایک شہر ہے۔ اس لئے اس کے کھنڈروں کے آثار یہاں ہڑپہ میں نمائش کیے گئے ہیں۔ ہم میوزیم سے باہر آئے تو ہماری آنکھوں میں تیز دھوپ کے تیر اترے‘ بدن پسینے میں نہا گیا ‘دماغ پگھلنے لگے‘ اتنی تیز دھوپ تھی۔اور ہاں ہڑپہ میں موہنجو داڑوکی مانند پرشکوہ تالاب ‘گلیاں‘ کنویں اور چوڑی گلیاں اور رہائش گاہیں نہیں ہیں کچھ ٹیلے ‘کچھ ڈھیر ہیں ‘چند قبریں اور دو چار قدیم دیواریں ہیں اور ایک نادان سیاح مایوس ہو کر کہتا ہے کہ ہڑپہ کہاں ہے۔ وہ قدیم شہر جو موہنجو داڑو پر بھی سبقت رکھتا تھا‘ اس لیے بھی کہ رگ وید میں اور قدیم کتابوں میں اس کا تذکرہ ’’ہری یوپیا‘‘ کے نام سے آتا ہے۔ جسے آریائی دیوی دیوتائوں نے اندرا ایسی قہر انگیز دیوی نے اپنی بجلیاں گرا کر تباہ کیا تھا۔ موہنجو داڑو کا تذکرہ تو کسی بھی قدیم مخطوطہ میں نہیں ملتا تو وہ ہڑپہ کہاں ہے ؟ دراصل وہ ہڑپہ لاہور سے ملتان جانے والی براستہ ساہیوال جانے والی ٹرین کی پٹڑی تلے دفن ہے۔ انگریزوں نے جب یہ ریلوے لائن تعمیر کی تو مقامی ٹھیکیداروں نے ہڑپہ کے کھنڈروں میں بیکار پڑی ہوئی لاکھوں اینٹوں کو کھود کر انہیں بیل گاڑیوں پر لاد کر ٹرین کی پٹڑی تلے بچھا دیا۔ یعنی کیسا معجزہ ہے کہ انسان اپنی تازہ ترین ایجاد ریل گاڑی کی پٹڑی کی بنیاد قدیم ترین تہذیب کی اینٹوں پر رکھتا ہے۔ چنانچہ جب کبھی آپ لاہور سے ساہیوال کی جانب ٹرین پر سفر کرتے ہیں تو جان لیجیے کہ ہڑپہ کی قدیم اینٹوں پر سفر کرتے ہیں۔ انجن کی چھک چھک کے ساتھ اگر دھک دھک کی آواز آتی محسوس کرتے ہیں تو یہ ان ہڑپہ کی اینٹوں کے دل ہیں جو اب تک دھڑکتے ہیں۔ بقول مجید امجد… میرا دل ہے یا شہر میونخ ہے‘ برف گرتی ہے ساز بجتے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ہڑپہ ایک غفلت زدہ کھنڈر نہیں ہے۔ اس کا دھیان رکھا جا رہا ہے۔ آثار کے درمیان میں سیاحوں کے لیے راستے اور روشیں تعمیر کی جا رہی ہیں اور مجھے خوشی ہوئی کہ روزانہ سینکڑوں بچے سکولوں کے ہڑپہ کے کھنڈروں میں گھومتے اپنی قدیم تاریخ سے آگاہ ہوتے ہیں۔ رانا ٹیپو کا کہنا تھا کہ ستمبر گیارہ کی ستم گری سے پیشتر یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے آثار قدیمہ کے طالب علم بہت کثرت سے ہڑپہ آیا کرتے تھے۔ عراق ‘ مصر‘ ترکی اور ہندوستان کے علاوہ آرکیالوجی میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ہڑپہ قدیم تہذیب کا ایک مکّہ ہوا کرتا تھا۔ اتنی کثرت سے تو نہیں لیکن اب بھی تحقیق کرنے والے لوگ آتے رہتے ہیں اور ہم انہیں یہاں اپنے ریسٹ ہائوس میں ٹھہراتے ہیں۔ البتہ مجھے ایک اور طمانیت اور مسرت بہت ہوئی جب ٹیپو نے مجھے بتایا کہ مقامی سکولوں کے نصاب میں ہڑپہ تہذیب کا تذکرہ شامل ہے اور بچے نہایت اشتیاق سے ان کھنڈروں میں بہت وقت گزارتے ہیں۔ ویسے مقامی سکولوں کے نصاب میں ہی کیوں پاکستان بھر کے سکولوں کے نصاب میں ہڑپہ تہذیب کا کوئی باب کیوں شامل نہیں ہے ۔شائد اس لیے کہ ہماری تہذیب کا آغاز ٹین ایجر سپہ سالار محمد بن قاسم کے حملے سے ہوتا ہے۔ اس کی آمد سے پیشتر سوائے تاریکی کے اور کچھ نہ تھا اور اس لیے ایک بچے نے اپنے باپ سے پوچھا تھا کہ ابا جی کیا محمد بن قاسم کے نزول سے پیشتر ہر جانب پانی ہی پانی تھا اور ہم اس بچے کو کیسے بتائیں کہ نہیں‘ اس کی آمد سے پیشتر یہاں پانی ہی پانی نہیں تھا۔ شاندار اور پرشکوہ اور قابل فخر تاریخی قدامت تھی۔ اشوک اعظم‘ چندر گپت موریا‘ پورس اورپانینی بھی تھے ۔ہم اس بچے کو قطعی طور پر یہ تو بتا نہیں سکتے کہ وہ قاہر حجاج کا نوخیز بھتیجا جس نے صرف ایک مسلمان لڑکی کی پکار پر ظلمت کدہ ہندوستان پر دھاوا بول دیا تھا جب واپس گیا تو بغداد کے غلاموں کے بازار میں لونڈیوں‘ باندیوں کے ریٹ گر گئے اگرچہ وہ بھی ایک قالین میں لپیٹ کر ہلاک کر دیا گیا کہ جب وہ واپس گیا تو وہاں اس کے حجاج چاچا نہ تھے۔ ان کی جگہ ایک اور چاچا تخت پر براجمان ہو چکے تھے۔ہم ہری یوپیا میں تھے۔ بلوچستان کے مہر گڑھ کے بعد برصغیر کے قدیم ترین شہر کے کھنڈروں میں تھے۔ دھوپ کی شدت سہتے گھومتے تھے اور ہر قدم پر ہمارے پائوں میں کسی ہڑپن دوشیزہ کا گھڑا ٹوٹتا تھا‘ کسی سوہنی کا گھڑا ٹوٹتا تھا کوئی جام ریزہ ریزہ ہوتا تھا۔ کسی بچے کا کھلونا ٹوٹتا تھا اور تب ہمارے بن بلائے گائیڈ نے اعلان کیا کہ اب میں آپ کو ایک ایسا ٹیلادکھائوں گا جہاں دنیا میں سب سے زیادہ شراب کے پیالوں یعنی گوبلٹس کے شکستہ ڈھیر ہیں۔ واہ!یعنی شراب کے پیالوں کی ٹھیکریوں کے انبار کا ٹیلا۔ چلو چلو وہاں چلو جہاں ہڑپہ کی شراب کے رِند توبہ کر کے اپنے جام توڑتے تھے۔(جاری)