یہ غالباً آٹھویں صدی کا قصہ ہو گا کہ جب نہ ریل تھی نہ ٹرین تھی نہ شاہراہیں تھیں اور نہ ہی کوئی باقاعدہ گزرگاہیں۔ اس زمانے میں بغداد اسلامی سلطنت کا دارالخلافہ تھا۔ وہاں ایک روز دربار میں خلیفہ ابو جعفر منصور باذوق درباریوں سے ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران کہنے لگا کہ آلو بخارا کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ تب بغداد اور اس کے گردونواح میں آلو بخارے کا موسم نہ تھا۔ مگر اہل دربار میں سے کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ کہے کہ حضور! پھل تو موسم کا ہوتا ہے اور آج کل آلو بخارے کا موسم نہیں۔ خلیفہ کا کاتب بڑا کائیاں تھا۔ سرجھکا کر کہنے لگا، سرکار تعمیل ہوگی۔ آج کی اصطلاح میں کاتب سے مراد چیف سیکرٹری ہے۔ کاتب نے البریدالسریع یعنی اپنے تیز رفتار ڈاک کے نظام کے ذریعے مصر پیغام بھیجا کہ وہاں سے آلو بخارے بھجوائے جائیں۔ اگلے ہفتے بیس بائیس کبوتروں کی تربیت یافتہ ڈار کوئی چالیس کے قریب آلو بخارے لے کر خلیفہ کے دیوان یعنی سیکرٹریٹ میں اتری۔ کاتب نے کبوتروں کے پنجوں کے ساتھ بندھے ہوئے آلو بخارے بڑی احتیاط سے اتروائے اور اہتمام کے ساتھ خلیفہ کو پیش کئے۔ خلیفہ بے موسم کے آلو بخارے دیکھ کر دنگ رہ گیا اور اس نے کاتب کی فرمانبرداری اور سمجھداری کی بہت تعریف کی۔ اس زمانے میں جب ابھی یورپ میں ڈاک یا پیغام رسانی کا کوئی تصور نہ تھا تب بنو امیہ کے قائم کردہ شعبہ ڈاک عباسی خلفاء نے آٹھویں صدی سے لے کر 13 ویں صدی تک ایک تیز رفتار محکمہ ڈاک میں بدل دیا تھا۔ اس زمانے میں خط گھوڑوں، خچروں اور کبوتروں کے ایک مربوط نظام سے صرف چار روز میں بغداد سے مصر اور وہاں سے بغداد پہنچتا تھا۔ 20 ویں صدی میں جب ریل گاڑیاں اور ہوائی جہاز بھی عام ہو گئے تب بھی خطوط کی ترسیل میں چار روز سے زائد ہی لگتے تھے کم نہ لگتے تھے۔ اس لیے ہمارے ہاں گیتوں میں کبوتر کو پنجابی شاعری میں ایک مہرباں قاصد کے طور پر جو پکارا جاتا تھا تو وہ محض ایک شاعرانہ خیال نہ تھا بلکہ سدھائے اور سکھائے ہوئے کبوتر بڑی محیرالعقول پیغام رسانی کے کارنامے انجام دیا کرتے تھے۔ تبھی تو پنجابی کا یہ گیت بہت مشہور ہوا۔ اس گیت میں جدائی کی کسک بھی ہے اور وصل کے لیے تڑپ بھی ہے جو پرانے زمانے کے تیز رفتار قاصد کو مخاطب کر کے لکھا گیا ہے۔ واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا اوکھیاں تے لمبیاں منزلاں تے تیریاں راہ دے وچ لکھاں نے طوفان تے ہنیریاں ویکھیں کتے حوصلہ نہ ڈھاویں وے کبوترا واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا میرے بھتیجے محمد حمزہ پراچہ کی چند روز میں شادی ہونے والی ہے۔ میں نے بھائی سعید احمد پراچہ سے کہا کہ وہ فیشن ایبل اور مہنگی کوریئر سروس کے ذریعے دعوتی کارڈ ارسال کرنے کی بجائے اپنے محکمہ ڈاک سے کارڈ بھیجیں اور اسراف سے بچیں۔ دولہا میاں کوریئر سروس کے حق میں تھے مگر جب سعید بھائی نے اسے بتایا کہ تمہارے تایا کی ہدایت ہے کہ اپنے محکمہ ڈاک کی یو ایم ایس سروس استعمال کی جائے تو لاہور سکول آف اکنامکس سے اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر مودب و فرمانبردار دولہا حمزہ پراچہ نے اپنی خاندانی روایات کے مطابق سرتسلیم خم کردیا۔ دو چار روز پہلے جب کئی احباب اور اعزا و اقارب کی طرف سے مجھے اور سعید بھائی کو شکوے سننا پڑے کہ آپ لوگوں نے تقریب سعید کے موقع پر ہمیں بھلا دیا ہے تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ محکمہ ڈاک جس کے بارے میں میرا رومانس یہ تھا کہ اس کے پیام بر روایتی و رومانوی کبوتر جیسی مستعدی کے ساتھ خط منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں اب محض ایک خواب و خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔ تحقیق کی تو ہمارے ہی دعوت نامے نہیں دوسرے بہت سے لوگوں کی طرف سے ارسال کردہ خطوط میں سے پچاس ساٹھ فیصد تک منزل مقصود تک نہیں پہنچتے۔ ہمارے لڑکپن میں عام لفافے پر ٹکٹ لگا کر خط بھیجنے کا مطلب یہ تھا کہ خط کی سوفیصد ڈیلیوری یقینی ہے۔ اس زمانے کا پوسٹ مین خاکی وردی زیب تن کر کے شہروں میں دن میں دو مرتبہ ڈاک تقسیم کرتا تھا اور مجال ہے کہ کبھی کوئی خط ادھر سے ادھر ہو جائے۔ میں نے آج محکمہ ڈاک سے براہ راست معلومات لیں تونارمل وزن کے غیر رجسٹرڈ خط پر آٹھ روپے جبکہ رجسٹرڈ خط پر 38 روپے کے ٹکٹ لگتے ہیں اور یو ایم ایس جس کے کسی زمانے میں بڑے گن گائے جاتے تھے اس پر 59 روپے کے ٹکٹ لگتے ہیں جبکہ ایک اچھی کوریئر سروس والے ایک ہی شہر کے اندر خط پہنچانے کے 140 روپے اور دوسرے شہر ترسیل کے لیے 280 روپے چارج کرتے ہیں۔ غضب خدا کا اتنے پیسے۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق جب محکمہ ڈاک کی تباہ حالی پستی کے اس درجے تک پہنچی ہوگی تو لوگ مجبوراً پرائیویٹ کوریئر سروس کے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر مجبور ہوں گے جیساکہ سعید بھائی نے محکمہ ڈاک کے ہاتھوں لگنے والے چرکے کے بعد کوریئر سروس کے ذریعے ان احباب کو دعوت نامے ارسال کئے جن تک نہ پہنچے تھے۔ جیساکہ اوپر بتا چکا ہوں کہ اسلامی دنیا میں آٹھویں اور نویں صدی عیسویں میں ہی تیز ترین پیغام رسانی کا نظام قائم ہو چکا تھا جبکہ برطانیہ میں ڈاک کی ترسیل کا تصور 1516ء میں منظر عام پر آیا اور 1635ء سے ڈاک کی ترسیل کا باقاعدہ آغاز رائل میل کے نام سے ہوا۔ یہ ایک مثالی سرکاری میل سروس تھی جو شہر شہر اور گائوں گائوں تک دفتروں اور گھروں میں خطوط پہنچانے لگی۔ اس رائل میل کی روایات کے عین مطابق برصغیر پاک و ہند میں پوسٹل سروس کا آغاز 1764ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ممبئی میں پہلا پوسٹ آفس قائم کر کے کیا۔ 1852ء میں پہلی بار ڈاک کے ٹکٹ جاری ہوئے۔ انڈیا میں رائل میل کے ہی انداز میں محکمہ ڈاک خدمات انجام دیتا رہا۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں بھی ڈاک کا شاندار نظام کام کرتا رہا۔ اب جستجو کی تو معلوم ہوا کہ چند سال پہلے تک پاکستان کے محکمہ ڈاک کی یہ ابتر حالت نہ تھی۔ گزشتہ دو تین دہائیوں سے ہم نے اپنے اپنے ہاتھوں سے اپنے سرکاری اداروں کو تباہ حالی سے دوچار کیا ہے۔ ایک زمانے میں نیویارک کے جیمز فیرلے پوسٹ آفس کی پیشانی پر پہلی مرتبہ امریکی پوسٹل سروس کا سلوگن پڑھا۔ ’’برفباری یا طوفانی بارش یا شدید گرمی یا راتوں کی تاریکی جیسی رکاوٹیں ہمارے پیغام رساں خاطر میں نہیں لاتے اور وقت مقررہ پر خط منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ یہ سلوگن پڑھ کر میرے دل نے کہا کہ یہاں کے پیغام رسانوں کا تو مجھے علم نہیں مگر یہ سلوگن پاکستان محکمہ ڈاک کے ڈاکیوں کے بارے میں سو فیصد درست ہے۔ اب یہ ’’ہے‘‘ تھا میں بدل گیا ہے۔ محکمہ ڈاک کی موجودہ ابتری دیکھ کر دل کو صدمہ پہنچا۔ چیف جسٹس لوٹ مار کرنے والی کوریئر سروس کی بھی خبر لیں جیسی کہ انہوں نے منرل واٹر کمپنیوں اور مہنگے پرائیویٹ سکولوں اور ہسپتالوں کی خبر لی ہے اور ساتھ ہی سرکاری محکمہ ڈاک کی بربادی کا بھی نوٹس لیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں آج تک صدیوں پرانی پوسٹل سروس کا معیار نہ صرف برقرار ہے بلکہ اور بہتر ہوا ہے مگر ہم اپنے سرکاری شعبوں کی بربادی پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ میں تو سرکاری محکموں کی بربادی اورپرائیویٹ اداروں کی لوٹ مار سے مایوس ہو کر رومانوی کبوتروں اورشریف النفس پوسٹ مینوں کو صدا دوں گا۔ واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا