ملتان کے نوجوان صحافی اقبال مبارک سوموار کی شب اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 45 برس تھی، وہ ایک قومی روزنامہ میں سینئر سب ایڈیٹر کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے تھے، اقبال مبارک 9 نومبر 1974ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول راجن پور سے میٹرک کیا، گریجوایشن کے بعد صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ وہ صحافتی تنظیموں کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ اقبال مبارک نے مختلف اخبارات میں کام کیا۔ سرائیکی وسیب خصوصاً ملتان سے ان کو بہت محبت تھی، جناب امتیاز گھمن کی فرمائش پر ایک کتاب سرائیکستان کی بحث کے نام سے انہوں نے مرتب کی، یہ کتاب 2011ء میں جھوک نے شائع کی۔ اس میں بندہ ناچیز سمیت بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ، مظہر جاوید، لعل حسین پنوار، ایم این اے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ، ابن عبداللہ، شفقت میتلا، جام ایم ڈی گانگا، ممتاز عاصم ایڈووکیٹ، ملک رئوف عامر، جاوید اقبال امبر، حبیب اللہ خیال، ظفر اقبال، مختیار شاہ، وارث ملک، کلیم قریشی، نیاز لکھویرا، پروفیسر اللہ بخش لنگاہ، شبیر اشوفتہ ایڈووکیٹ، سابق ایم این اے نواب امان اللہ خان، منیر ناصر، خالد مسعود خان، سجاد جہانیہ، شیخ محمد سعید کی تحریریں شامل تھیں۔ اس کتاب میں دونوں طرف کا نکتہ نظر شامل تھا، ملتان صوبہ اور بہاولپور صوبہ کے بارے میں بھی مضامین شامل ہیں لیکن نتیجہ کے طور پر یہ بتایا گیا کہ اگر صوبوں کے نام شناخت کے نام پر ہیں صوبہ بلوچستان بھی موجود ہے تو سرائیکستان میں کیا حرج ہے؟ اقبال مبارک کے گھر کی زبان سرائیکی نہ تھی لیکن اُن کا قول یہ تھا کہ زبان ماں کی نہیں بلکہ دھرتی ماں کی ہوتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہم گھر میں پنجابی یا اردو بولتے ہیں لیکن ہم جس خطے میں پیدا ہوئے اور جہاں رہتے ہیں یہاں کی زبان سرائیکی ہے تو گویا ہم خود کو سرائیکی کہلواتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس خطے میں محرومیاں ہیں اور ان محرومیوں کا شکار خطے میں بسنے والے تمام لوگ ہوئے ہیں اور آج ہم تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پرائیویٹ سیکٹر میں دھکے کھا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں ملازمتیں نہیں ملتیں۔ اقبال مبارک نے اپنی کتاب ’’سرائیکستان کی بحث‘‘ کے حرف آغاز میں لکھا کہ اس خطے میں محرومیوں کا یہ حال ہے کہ صحت کے حوالے سے دیکھیں تو ساہیوال سے بلوچستان تک کے لوگوں کی طبی ضروریات کے لئے محض ایک نشتر ہسپتال ہی ہے جو تاحال برن یونٹ، کارڈیالوجی سنٹر، چلڈرن کمپلیکس اور ایسی ہی بہت سی ضروریات سے محروم ہے۔ اس خطے میں موٹروے ہونا تو دور کی بات کوئی کام کی سڑک نہیں ہے۔ پلوں کی حالت خستہ ہے۔ نشتر گھاٹ کے قیام پر عوام کے بھرپور مطالبات کے باوجود آج تک پختہ پل تعمیر نہیں ہو سکا۔ اسی وجہ سے آئے روز وہاں حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ تعلیمی حوالے سے دیکھیں تو یہ محرومیاں دو چند ہو جاتی ہیں۔ پورے وسیب میں صرف 3 ریڈیو سٹیشن ہیں۔ ریڈیو سٹیشن ہے تو اس پر سرائیکی میں گنتی کے چند پروگرام ہی پیش کئے جاتے ہیں۔ اقبال مبارک کی کتاب میں میرا ایک مضمون ’’آئو سرائیکی سرائیکی کھیلیں‘‘ کے نام سے شامل ہے اس میں میں نے لکھا کہ سیاسی جماعتوں نے سرائیکی صوبے کے ایشو کو کھیل اور تماشہ بنا رکھا ہے جب یہ لوگ برسر اقتدار نہیں ہوتے تو وسیب کی بات کرتے ہیں اور محرومیوں کی بات کرتے ہیں اور جب برسر اقتدار آتے ہیں تو یہ سب بھول جاتے ہیں۔ میں نے اس موقع پر یہ بھی لکھا کہ ہماری سرائیکی جماعتیں بھی سرائیکی ایشو پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے مسئلے کو کھیل تماشہ نہیں سنجیدہ بنانے کی ضرورت ہے کہ سرائیکی صوبہ وسیب میں بسنے والے سب کی ضرورت ہے جس طرح سرائیکی وسیب میں صدیوں پہلے آنے والے گیلانی، قریشی، بخاری، افغانی اور بلوچی وغیرہ اس دھرتی کا حصہ بن گئے ہیں، اس طرح نصف صدی پہلے یہاں پنجابی اور اردو بولنے والے مہاجرین بھی ہمارے ہیں اور وہ بھی اس دھرتی کا حصہ ہیں لہٰذا تدبر، دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وسیب کے سرائیکی، پنجابی اور مہاجر بھائیوں کو ساتھ ملا کر حقوق کیلئے جدوجہد کریں۔ اس صورت میں کامیابی قدم چومے گی اور ہمارے لیڈروں کی توقیر میں بھی اضافہ ہو گا اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو سکا تو آنے والے وقت کا مؤرخ انہیں معاف نہیں کرے گا اور وسیب کے مظلوم لوگوں کے جذبات سے کھیلنے والے قوم کے نام نہاد لیڈروں کا ذکر محسنوں کے باب میں نہیں بلکہ دشمنوں کی فہرست میں آئے گا۔ اقبال مبارک قابل صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی سمجھدار انسان تھے، جب بھی اُن سے ملاقات ہوئی انہوں نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ سئیں صوبے کا کیا بن رہا ہے؟ انہوں نے شادی بھی دیر سے کی اور فکر معاش انہیں ہمیشہ دامن گیر رہا، چند دن پہلے میری اُن سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت پریشان نظر آئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ میڈیا میں سخت بحران آیا ہوا ہے، بہت سے ہمارے صحافی دوست بیروزگار ہو چکے ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ شکر ہے کہ ہمارے ادارے سے تو کسی شخص کو ابھی تک نہیں نکالا گیا لیکن ایک خوف کی کیفیت ہے، اس طرح نظر آرہا ہے کہ برطرفی کی تلوار لٹک رہی ہے، اگر خدانخواستہ ہمیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تو ہم تو کوئی دوسرا کام کرنے کے قابل بھی نہیں، بچوں کے بڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مسائل بڑے ہو رہے ہیں۔بچوں کی تعلیم بھی ہے اور ہم نے تو جیسے کیسے گزار لی ، اب بچوں کیلئے تو کچھ کر جائیں، رخصت ہوتے ہوئے بھی اقبال مبارک نے مجھے گرم جوشی سے رخصت کرتے ہوئے کہا کہ سئیں آپ نے خطے کی محرومیوں کے خاتمے اور صوبے کیلئے بہت کچھ کیا ہے لیکن مجھے دکھ ہوتا ہے کہ اس خطے کے جاگیرداروں نے کچھ نہیں کیا اور جو صوبے کا وعدہ کرکے اسمبلی میں پہنچے وہ بھی بھول چکے ہیں۔ اقبال مبارک کی یادیں اور باتیں ہمارا سرمایہ ہیں وہ اپنی دھرتی، مٹی اور وسیب سے محبت کرنے والے تھے، ایسے لوگ کبھی نہیں مرتے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، سرائیکی شاعر قیس فریدی کی زبانی ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ۔ کلہیںبہہ کے سوچاں تنکوں اکھیں موٹ کے ڈیکھاں تیکوں خوشبو خوشبو تیڈیاں جھوکاں وانگ ہوا دے گولاں تیکوں