میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ایون فیلڈ پراپرٹی کیس میں نیب کے جج کے ہاتھوں طویل قید بامشقت کی سزا کوئی حیران کن خبر نہیں تھی۔ موجودہ سیاسی ماحول میںیہی توقع کی جا رہی تھی کہ نواز شریف کو عدالتوں کے ذریعے جیل میں ڈال کر سیاست سے بھی دیس نکالا دے دیا جائے گا لیکن بعض حلقے اتنی سخت سزا کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ ویسے توقانون کے تحت نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد کو 14برس قید کی سزا بھی دی جا سکتی تھی، لہٰذا نیب عدالت کے جج محمد بشیرکہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ہتھ ہولا رکھا ہے۔ ابھی باقی کیسز میں بھی میاں صاحب کو اتنی ہی سزا ہو سکتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ان کی سزا کی مدت عمر قید سے بھی زائد ہے۔ ان کے خلاف دیئے گئے فیصلے میں اسی لاکھ پاؤنڈ جرمانہ اور بیٹی کو بیس لاکھ پاؤنڈ کا جرمانہ بھی شامل ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے جمعہ کے روز وطن واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق انھیں لینڈ کرتے ہی گرفتار کیا جائے گا۔ اس پس منظر میں یقینا واپسی کا فیصلہ جرأت مندانہ ہے، اس سے ان لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے جو کہتے تھے کہ میاں صاحب جیل نہیں کاٹ سکتے۔نیب عدالت کے فیصلے میں کچھ بنیادی سقم ہیں جہاں سپریم کورٹ نے انھیں اقامے کی بنیاد پر زندگی بھر کے لیے نااہل کیاتھا وہاں نیب عدالت نے اپنے فیصلے میںکرپشن کے بجائے اپنی ذرائع آمدن اور وسائل سے بڑھ کر اثاثے بنانے کی بنا پر انھیں، صاحبزادی اور داماد کومجرم قرار دیا ہے۔ یقینا میاں صاحب کے وکلا کو فیصلے میں کچھ بنیادی سقم اور تضادات نظر آئے ہوں گے۔ جن کی بناپر وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کریںگے۔ ایون فیلڈ فلیٹس میں فیصلہ سننے کے فوری بعد لندن سے جاری ہونے والی تصویر میں نواز شریف واضح طور پر پریشان نظر آ رہے تھے۔ اپنی بیٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ انھیں جرم نہیں بتایا گیا اور’’ خفیہ ہاتھ‘‘ ملک کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں، انھوں نے اعلان کیا تھاکہ وہ اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے ہوش میں آتے ہی وطن واپس آئیں گے تاکہ بقول ان کے وہ چند ججوں اور جرنیلوں کے ٹولے کے شکنجے کو توڑ سکیں، مکروہ کھیل کا حصہ بننے والوں کو پچھتانا پڑے گا لیکن اب انھوں نے فوری طور پر واپسی کا ارادہ باندھا ہے۔ میاں نوازشریف کے لہجے میں تلخی گزشتہ ایک برس میں ان کے ساتھ ہونے والی ’وارداتوں‘ کے پس منظر میں قابل فہم ہے۔ اس امر کے باوجود کہ فیصلے میںتسلیم کیا گیا ہے کہ میاں صاحب پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوا بلکہ وہ آمدن سے زائد اثاثوں کی آمد نی کا ذریعہ نہیں بتا سکے۔ نیب ترجمان نے کہا ہے کہ معلوم ذرائع سے زائد اثاثے بنانے کا جرم نیب آرڈیننس 1999ء کے تحت کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس فیصلے کے سیاسی محرکات خود میاں نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے لیے تباہ کن ہیں کیونکہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب چند ہفتوں میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ چن کر اس ٹائمنگ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان کی جماعت جس پر شب خون مار کر پہلے ہی کافی لوگوں کو توڑا جا چکا ہے خدشہ تھا کہ بددلی کا شکار بھی ہو جائے گی نیز مزید لوگ بھی میاں صاحب کو خیرباد کہہ دیں۔ شاید اسی بنا پر ہی میاں صاحب نے خطرات کے باوجود واپسی کا سفر باندھا ہے۔ کیا میاں صاحب کے ساتھ ہونے والا ’حسن سلوک ‘ مکافات عمل ہے؟۔ نواز شریف کے دماغ پرربع صدی سے سویلین حکومت یا اپنی ذاتی اجارہ داری کا بھوت سوار ہے۔ 1993ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحق خان کے خلاف ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ والے خطاب سے جس محاذ آرائی کا آغاز ہوا وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف سے بھی جاری رہی جو ان کے اقتدار سے انخلا پر منتہج ہوئی اور موجودہ فوجی قیادت سے جسے وہ خود لے کر آئے تھے لڑائی انھیں یہاں تک لے آئی ہے۔ میاں صاحب کی سیاست اور مسلم لیگ (ن) نے جنرل ضیاء الحق کی کو کھ سے جنم لیا لیکن وزیراعظم بنتے ہی انہی پر غلبہ حاصل کرنے کا بھوت سوار ہو گیا۔ وہ بھول گئے کہ ہمارے ہاں دشمنوں کو تومعافی مل سکتی ہیں لیکن غداروں کو نہیں۔ وہ جس اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار تھے انھوں نے اسی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ میاں صاحب کو دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ باریک بینی سے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس دوران ان سے کیا کیا غلطیاں ہوئی ہیں۔ ماضی بعید کو چھوڑ کر ان کے حالیہ دور حکومت میں بھی میاں صاحب کا طرز حکمرانی کیا رہا؟۔ وہ پارٹی قائدین تو کجا کابینہ سے بھی کٹ کر رہ گئے تھے۔ انھوں نے اپنے اردگرد نورتنوں کا گروپ اکٹھا کر لیا تھا، شاذوناذر ہی اسمبلی میں آنا جو ان کی اصل طاقت کا منبع تھا اور کابینہ ارکان سے میل ملاقات نہ رکھنا ان کا معمول بن گیا تھا۔ اس پر مستزادیہ کہ حکومت محض ان کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحق ڈار جو عملی طور پر نائب وزیراعظم بن بیٹھے تھے اور سپر بیورو کریٹ، پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے ذریعے چلائی جا رہی تھی حتی کہ برادر خورد شہباز شریف کو بھی دور رکھا جا رہا تھا۔ میاں صاحب جمہوریت کا دم تو بھرتے ہیں لیکن ان کا اپنا ریکارڈ اس حوالے سے اتنا درخشاں نہیں ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کے دور میں میڈیا کے آزادی اظہار اور اپوزیشن پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی لیکن دوسری طرف وہ عوام سے کٹ کر رہ گئے تھے۔ ’ڈان لیکس‘ کے معاملے میں فوجی قیادت سے بھی تناؤ پیدا ہو گیا حالانکہ ’ڈان لیکس‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کے پیشرو جنرل راحیل شریف کے دور کی پیداوارتھی لیکن متفقہ اور طے شدہ نکات پر مبنی رپورٹ جاری کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا گیا۔ فواد حسن فواد جواب خود کرپشن کیسز میں نیب کی حوالات میں ہیں نے اس حوالے سے ایک ایسی خبر جاری کی جو فوجی قیادت کے ساتھ طے شدہ امور کے برخلاف تھی لہذا اس لیے قابل قبول نہیں تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اس پر ٹویٹ کر کے کہ نوٹیفکیشن تحقیقاتی بورڈ کی سفارشات کے مطابق ہے اور نہ ہی مکمل، اسے مسترد کرتے ہیں۔ میاں صاحب بجائے تحمل سے کام لینے کے اتنے برہم ہوئے کہ انھوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی برطرفی اور معافی کا مطالبہ داغ دیا۔ فوجی قیادت نے وہ ٹویٹ واپس لے لیا اور اس طرح معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ غالباً اس کے بعد مقتدر حلقوں میں یہ خیال مزید پختہ ہو گیا کہ نواز شریف کے ساتھ چلنا مشکل ہے۔ پہلے ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کے حوالے سے انھیں فوجی حلقوں میں پسند نہیں کیاجا رہا تھا۔ اس طرح ’ڈان لیکس‘ پر اختلافات جنرل قمر جاوید باجوہ اور میاں نوازشریف کے تعلقات میں آخری کیل ثابت ہوئے۔ ’پاناما لیکس‘ کے بعد بھی میاں نواز شریف کو یہ احساس نہیں ہوا کہ ان کے اردگرد گھیر اتنگ ہو رہا ہے۔ جب انھیں بعض ساتھیوں اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مشورہ دیا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جائیں تو انھوں نے اس پر صاد نہیں کیا اور عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ انھیں شاید یہ احساس ہی نہیں تھا کہ عدالت عظمیٰ بھی یکدم آزاد ہو چکی ہے اورباقی ادارے بھی ان کے خلاف ہیں۔ ویسے تو جس انداز سے ’پاناما لیکس‘ عمران خان کے لیے نعمت ثابت ہوا اور خان صاحب نے میاں صاحب کی سزا تک معاملے کی بھرپور پیروی کی۔ عدالت کے رویئے کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’پاناما گیٹ‘ کے فیصلے میں ایک فاضل جج نے نواز شریف کو ایک مافیا ڈان تک قرار دے دیا۔ نواز شریف کی سزا پر کوئی جاندار مظا ہرے نہیں ہوئے ۔ خود ان کے برادر خورد شہباز شریف کا ردعمل نرم تھا۔ ان کی پریس کا نفرنس میں دائیں بائیں بیٹھے افراد نے کالے بیج لگائے ہوئے تھے لیکن شہبازشریف نے نہیں۔ اگر ان کا خیال ہے کہ انھیں کو ئی وزارت عظمیٰ کے تخت پر متمکن کر دے گا تو یہ ایںخیال است و محال است ہو گا۔ اس کے لیے مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں عددی اکثریت حاصل کرنا پڑے گی ،جس کے امکانات اس فیصلے کے بعد مزید معدوم ہو گئے ہیں نیز یہ کہ نیب کا حصار ان کے گرد بھی تنگ ہو رہاہے ۔ یقینا انھوں نے پنجاب میں محنت شاقہ کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ وہ اچھے منتظم ہیں لیکن اب بھی ان کی پارٹی کی پہچان وہ نہیں بلکہ میاں نواز شریف ہی ہیں۔ میاں شہباز شریف اور ناراض چوہدری نثار کا یہ موقف درست ثابت ہوا ہے کہ فوج اور عد لیہ سے پنگا لینا پارٹی کو مہنگا پڑے گا اور ایسا ہی ہوا ہے۔ دوسری طرف کیا اسٹیبلشمنٹ اس بات پر اعتماد کرے گی کہ ان کی سوچ بڑے بھائی سے الگ ہے۔