جب یہ کالم شائع ہوگا تو پاکستان کے اقتدار پر پرانے جانے پہچانے بلکہ آزمودہ چہرے دوبارہ براجمان ہو چکے ہونگے میری طرح کے تارکین وطن جن کی اکثریت پچھلے تین چار سال سے کچھ زیادہ ہی پاکستان کے بارے میں پْر امید تھی اسکی بڑی وجہ ایک ہی شخص تھا پھر اس کے ساتھ جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے۔ پاکستان میں عوامی وزیر اعظم عمران خان جدید پاکستان کے ایک معمار کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں اپنا نام اور مقام رقم کرواچکا ہے۔ علی سردار جعفری نے آج سے 50 سال پہلے ایک طویل نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا- ایشیاء جاگ آٹھا - باقی سب ممالک تو جاگ گئے مگر پاکستانی اب جاگنے لگے تھے اور اپنے اس عمل کے دوران وہ ایک بہت بڑے حادثے کا شکار ہوئے ان سے انکی قیادت کو چھیننے کی ایک مذموم سازش ہوئی ہے علی سردار جعفری نے کچھ لوگوں کی نشاندہی کی تھی اس نے کہا تھا ۔ "یہ لٹیرے ملک کے غدار ڈالر کے غلام جن کے منہ میں تم نے ڈالی ہے حکومت کی لگام یہ بخل بچوں یہ پٹھو بھی نہیں آئیں گے کام یہ تو ہیں بھاڑے کے ٹٹو ان سے مت بازی لگائو بھاگ جاؤ ایشیاء سے بھاگ جاؤ گو کہ عمران خان کو وقتی طور پر اقتدار سے الگ کردیا گیا ہے۔ انصاف کی ایک نئی کہانی رقم ہوئی عدالتیں اتوار کو بھی دن کی روشنی میں کھلیں اور رات کے اندھیرے میں بھی کھلیں۔اتوار کو بھی اور سوموار کو بھی ۔ ایٹم بھی ایک- کمرہ عدالت بھی ایک - ایجنڈا بھی صرف عمران ہٹائو ایک۔ ہائے کیا غضب کا انصاف ہے۔ بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں سلام ہو اسد قیصر اور قاسم سوری کو جنہوں نے ایک غیر جمہوری عمل کو اور بیرونی سازش کا معلوم ہونے کے بعد عہدوں کو ٹھوکر مار دی۔ توقع کی جارہی ہے کہ عمران خان ایک مرد آہن کی طرح عوامی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کریں گئے اور عوام ان کی پکار پر لبیک کہیں گے ۔ آسمان ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گئی وہ لوگ جو طلوع ہوئے ہیں امریکی ایندھن کی مدد سے وہ عوامی ریلے سے جلد ہی غروب ہوجائیں گے۔ یہی تاریخ کا فیصلہ ہوگا کیونکہ بقول شاعر : وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے عمران خان 2013ء کے الیکشن سے تھوڑے پہلے میرے ٹی وی کے پروگرام منزل بہ منزل کی ریکارڈنگ کے لئے تشریف لائے تو میں نے سوال کیا امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تحریک انصاف اور عمران خان کی کیا پالیسی ہو گی آپ کو امریکہ فرینڈلی کردار ادا کرنے کی آفر ہوتی ہے۔ عمران خان بلا جھجک بولے امریکہ کی دوستی میں کوئی قباعت نہیں لیکن امریکہ کی غلامی نہیں کریں گے یہ جو ڈالروں کے پجاریوں نے ڈالر لے لے کر جو اپنے پاکستانی قتل کروائے یہ سب بند ہونے تک میں احتجاج کرتا رہوں گا۔ یاد رہے کہ ان دنوں عمران خان امریکی ڈراون حملوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور اسی وجہ سے 2013ء کے الیکشن میں انکی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے لئے انہیں طالبان خان کے القابات سے پکارا گیا۔ پھر تاریخ نے ثابت کیا کہ امریکہ کو افغانستان میں ہزیمت آٹھانی پڑی۔ طالبان کا دفتر دوحا میں کھل گیا اور امریکہ افغانستان سے نکل گیا اور طالبان آج پھر افغانستان کے حکمران ہیں۔ آج اہل پاکستان کی طرح اوورسیز پاکستانی پوچھتے ہیں کہ عمران خان کو اقتدار سے کیوں ہٹایا گیا۔ میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے امریکہ کا پریشر آیا ہے اور ہماری قیادت اس کو ہینڈل نہیں کرسکی۔ پھر سادہ لوح لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں چھ لاکھ فوج ہے 22 کروڑ عوام ہیں اتنا بڑا ملک ہے پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ تو پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتا تھا وہ تو اسلاموفوبیا کے خلاف بات کرتا تھا اس نے غریب کو دس لاکھ کے ہیلتھ کارڈز عوام کو دیئے وہ غریبوں کا ہمدرد تھا اس نے اپنے قریبی ساتھیوں علیم خان اور جہانگیر ترین کے خلاف کیسوں میں انکی ناراضگی مول لی جو اب اس کی مخالفت کررہے ہیں ایک برطانوی ہوٹل کے مالک بھارتی سکھ نے پوچھا کہ پاکستان میں عمران خان کے ساتھ کیا ہورہا ہے میں نے جواب دیا کہ تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے جو ایک دستوری عمل ہے ۔آئین پاکستان میں شامل ہے ۔کہنے لگا کہ اس نے پڑھا ہے کہ امریکہ نے تین سو ملین ڈالر دیئے ہیں اور ممبران آف پارلیمنٹ خریدے گئے ہیں یار اتنے پیسے تو ہم دو چار سکھ ہی عمران کو دے دیتے کرتارپور راہداری کھول کر عمران خان نے بابا گرونانک کی زیارت کروا دتی بابا گرونانک اس کو سلامت رکھے۔ مانا عوامی وزیراعظم عمران خان انسان ہے اس کو اقتدار کا تجزبہ نہیں تھا حکمرانی کے اسرار و رموز سے ناآشنا تھا۔ اس سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن وہ ایک محب وطن پاکستانی ہے اس کی عوامی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوا ہے شاید یہی وہ خوف ہے کہ اپوزیشن جماعتیں الیکشن میں جانے سے گھبرا رہی ہیں لیکن عوامی طاقت اور عوام میں عزت نے آج اس کے وقار میں اضافہ اور اسے عظیم تر کے رتبے پر فائز کیا ہے۔ اقتدار اس کی نہیں بلکہ پاکستان اور اہل پاکستان کی ضرورت تھی۔ پاکستان سلامت رہے آج اس سے روشنی لے کر کئی مائوں کی گود میں اور عمران خان پیدا ہوچکے ہیں جیسے وفاقی وزیر علی احمد خان جس کی ایک تقریر 32 تقریروں پر بھاری تھی۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا