تمہاری یاد کا اب تک چراغ جلتا ہے عجیب لذت غم ہے کہ داغ جلتا ہے مجھے تو رونا ہے جی بھر کے مجھ کو رونے دو وگرنہ شعلہ دل سے دماغ جلتا ہے چراغ تو چراغ ہے اسے جلنا ہے چاہے آپ اسے ہوا کے دوش پہ رکھ دیں کہ بجھ گئے تو ہوا سے شکائتیں کیسی‘وہی کمال ہوتے ہیں جو چراغ راہ بن جاتے ہیں۔ مگر کوئی ایسا بھی ہے کہ چراغ لے کر انسان ڈھونڈ رہا ہے مگر کہاں صاحب! بات تو توفیق کی ہے کہ جگنو بھی چراغ بن جاتا ہے۔وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر۔ اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا۔ فقیر ساغر نے کہا تھا کہ اپنے بے نور چراغوں کو ضیا دی جائے۔ شاید یہ فقیر کی زمین پر مصرع کہا گیا تھا۔ سیاست میں چراغ کا ذکر کرنا کچھ جچتا نہیں مگر تیرگی کا تعلق تو بھی چراغ سے۔ خورشید رضوی یاد آئے: یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو بہرحال سینٹ کے الیکشن سر پر ہیں اور سب اپنے اپنے چراغ لے کر نکلے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی دلیل یہ ہے کہ چراغ تیل سے جلتا ہے اور تیل چاہے چوری کا ہو یا خیرات کا۔ کچھ تو آزمودہ چراغ ہیں جو جلتے بجھتے ساتھ نبھاتے آئے ہیں۔ آنکھوں سے محروم ایک شاعرہ روبینہ شاد کا شعر کتنا برمحل لگتا ہے: آگ لگ جائے ان چراغوں کو بزم میں روشنی نہیں کرتے ہائے ہائے یہ شعر آنکھ رکھنے والوں کے لئے کتنا بامعنی ہے۔ چراغوں کو جلانا اور بات ہے اور انہیں آگ لگانا کس کرب کی بات ہے۔ میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت ۔مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا۔بات استعاروں اور کنائیوں میں کہاں تک کی جائے۔ پس منظر اور پیش منظر سامنے ہے۔ ایک کردار سامنے آتا ہے تو اس کے گرد لپٹی کہانیاں کھلنے لگتی ہیں یہ کیسے چراغ ہیں جو تیرگی کے ضامن ہیں۔یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتارا گیا ہے تو سوشل میڈیا داستانوں سے بھر گیا ہے ترک خاتون اول کا خیرات میں دیا گیا ہار گیلانی صاحب کی بیگم صاحبہ کے گلے جا پڑا۔ ان کے خاندان نے ملتان کے گلی محلوں میں دفتر کھول کر نوکریاں بیچیں۔ پی آئی اے اور ایسے اداروں میں سرپلس لوگ بھرے ۔ زرداری سے مگر وفا کی لوٹی دولت کے خلاف خط نہیں لکھا‘ سزا یافتہ ہوئے اور دربار زرداری میں مقبول ٹھہرے۔ہمارے لوگ بھی کمال ہیں کہ اس بات پر حیرت کا اظہار فرما رہے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کے بعد سینیٹر کا الیکشن لڑ رہے ہیں تو بلندی سے نیچے آ گئے ہیں کہ کم درجہ منصب پر آئیں گے۔ سبحان اللہ۔ جناب یہ منصب بندوں سے عزت پاتے ہیں کیا وہ سینیٹر بننے کے بھی قابل ہیں۔ گیلانی صاحب کو جنوبی پنجاب اور رشتہ داریوں کی بنیاد پر اتارا گیا۔ ویسے تو مقابلے پر بھی کوئی نایاب ہیرا نہیں ہے۔ ویسے وہ جہاں سے سپانسرڈ ہے۔ وہ سب کو معلوم ہے وہ پہلوں کی بھی مجبوری تھے۔ پانی کو تو اپنی جگہ بنانا ہوتی ہے اور اگر پانی کو نکاس نہ ملے تو وہ پوری عمارت کو لے بیٹھتا ہے اور اس حقیقت کو سیاستدان اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس وقت اداروں کی ساکھ بھی دائو پر لگی ہوئی ہے۔کیسی لطف کی تشریح ہے کہ سینٹ الیکشن کی کلاز میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ صرف خفیہ ہی ہو سکتے ہیں۔ دلچسپ پوسٹ ریحانہ کنول نے لگائی ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ حکمرانوں کی جیت کو یقینی بنائے۔میں یہ نہیں لکھ سکتا کہ یہ کس کی طرف سے حکم ہوا ہے یا ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے۔ ویسے جاوید ہاشمی نے بڑی صراحت سے اس معاملے پر روشنی ڈالی ہے کہ خدا کے لئے کچھ پردا رہنے دیں۔ اداروں کو اس طرح سامنے نہیں آنا چاہیے۔ اس باغی نے تو واشگاف اظہار کر دیا ہے بس ویسے ہی نسیم اے لیہ یاد آئے: توہین عدالت کا ارادہ تو ہیں تھا بے ساختہ سرکار ہنسی آ گئی مجھ کو کتنا تکلیف دہ ہے کہ اس سیاست میں کیسے کیسے مہذب اور شائستہ لوگ بھی مجبور ہو جاتے ہیں اور پارٹی پالیسی پر ایسے کاربند ہوتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی الہامی فیصلہ ہے۔ مجھے علی محمد خان کی باتیں سن کر بہت رنج ہوا کہ انہوں نے اینکر کے سوال کرنے پر کہ آج کل پھر جہانگیر ترین فعال ہو رہے ہیں اور واپس پی ٹی آئی کو تقویت دینے آئے ہیں‘ کہا کہ جہانگیر ترین اگر ممبران کو پی ٹی آئی کے حق میں قائل کر رہے یں تو اس میں کچھ غلط نظر نہیں آ رہا۔ اینکر نے پلٹ کر کہا کہ وہ چینی چوری میں اربوں روپے بنا گئے۔ انکوائری میں سب کچھ سامنے آ چکا۔ مولانا فضل الرحمن تو اسے حق و باطل کا معرکہ کہتے ہیں مگر حق کہیں نظر تو نہیںآ رہا۔ دونوں اطراف ایک ہی طرح کے لوگ ہیں اور ان دونوں میں دوڑنے والے گھوڑے کسی اور کے ہیں ۔ دوسری طرف پی ڈی ایم اپنی تیاریوں میں مصروف ہے کہ بقول بلاول مارچ میں لانگ مارچ ہو گا وہ یوسف بلوچ کے جیتنے کے بعد بڑی ہوائوں میں ہیں کہ انہوں نے جیتنے والے کو اتنی بڑی لیڈ دلوائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس لیڈ کو دیکھ کر سلیکٹڈ کے ساتھ سلیکٹرز بھی پریشان ہو گئے ہونگے۔ لگتا ہے نظر ان کی بھی سلیکٹرز پر ہے۔ پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق جہاں بھی انہیں روکا گیا وہیں وہ دھرنا دے دیں گے۔ اس جانب حکمران بھی مطمئن ہیںکہ فیصل واوڈا کے کاغذات جانچ پڑتال کے بعد قبول ہو چکے اور پرویز رشید کے کاغذات مسترد ہو گئے اور اس کی توقع پہلے ہی سے سب کو تھی۔ حیرت کی بات نہیں ایسا ہی ہوا کرتا ہے اچانک کوئی کان میں سرگوشی کرتا ہے: میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں لیجیے بات چراغ سے شروع ہوئی تھی تو فراز ہی کے شعر پر آ گئی۔ ویسے سب اپنے اپنے چراغوں کو بچانے کے لئے ہوا کو مٹھی میں قید کرنے کی کوشش میں ضرور ہیں۔بس یوں سمجھ لیں کہ یہ ہوائے شمال ہے۔ آخر میں دو تازہ ترین اشعار خورشید رضوی صاحب کے : آرائش جہاں کو نہ سیارگاں پہ چھوڑ ایک آدھ چاند تو بھی بنا آسماں پہ چھوڑ کچھ کم نہیں ہیں رفتہ و حاضر کی تلخیاں آئندہ کے ملال کو آئندگان پہ چھوڑ