پاکستان میں زیادہ تر بیماریاں گندہ پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔لیکن یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ماضی میں لوگوں کو صاف پانی کا خواب تو بیچا گیا لیکن عملی طور پر اقدامات نہیں کیے گئے۔ صاف پانی کمپنی 2014ء میں بنائی گئی۔لیکن 2020 میں کابینہ کے فیصلے کے بعد اسے بند کر دیا گیا کیونکہ بھاری تنخواہوں پر کنسلٹنٹس رکھنے کے باجود یہ کمپنی عملی طور پہ لوگوں کو صاف پانی دینے میں ناکام رہی تھی۔ 6 سال میں اس کمپنی کے تحت 116فلٹریشن پلانٹس فی پلانٹ ساڑھے چھ کڑور روپے کی لاگت لگائے گئے جن میں سے بیشتر بند پڑے ہیں۔ جبکہ آب پاک اتھارٹی نے اس سے بہت کم قیمت میں نہ صرف فلٹریشن پلانٹس لگائے بلکہ پچھلی حکومت کے لگائے گئے پلانٹس جو مناسب دیکھ بھا ل نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے تھے انہیں بھی بحال کیا۔ان میں ملتان کے 11فلٹریشن پلانٹس شامل ہیں۔گورنر پنجاب کی ایک بہت بڑی خاصیت ہے کہ انہوں نے سول سوسائٹی اور مخیر اداروں کو بھی اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ٰترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں ایک واضح فرق سسٹم بنانے کا ہے۔ اور سسٹم فرد واحد سے نہیں اجتماعی کوششوں سے بنتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی بھی حکومت سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کے ایسا نظام اور منصوبے بنائے جس کے ثمرات عوام کو اس حکومت کے جانے کے بعد بھی ملتے رہیں، اس کی ایک مثال ریسکیو 1122 کا ادارہ ہے۔ جو آج بھی عوام کی صحیح معنوں میں خدمت کر رہا ہے۔ گورنر پنجاب کا وژن بھی آب پاک اتھارٹی کو ریسکیو 1122کی طرز پہ ایسا ادارہ بنانے کی ہے جسے بعد میں آنے والی حکومتیں بھی اس عوامی خدمت کے اس منصوبے کو صرف سیاسی بنیادوں پہ ختم نہ کر سکیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جن اقوام نے ترقی کی ہے ان ممالک میں ادارے کام کر رہے ہیں۔ گورنر پنجاب پرعزم ہیں کہ دسمبر کے آخر تک آب پاک اتھارٹی کے تحت 7.6 ملین لوگوں کو صاف پانی مہیا کر دیں گے اور اتنے ہی لوگوں کو ویلفیئر آرگنائزیشنز کے ذریعے صاف پانی مہیا کیا جائے گا۔ آب پاک اتھاڑتی نے حال ہی میں ملتان میں سابقہ دور کے بند فلٹریشن پلانٹس آپریشنل کیے ہیں۔انگریزی کی ایک کہاوت ہے 'جہاں مرضی ہے وہاں راستہ ہے' چوہدری محمد سرور نے اس مشن میں مخیر حضرات کو بھی شامل کیا ہے۔ اگر انسان کی نیت صاف ہو تو لوگ ہم خیال لوگ اس سے جڑتے جاتے ہیں۔ گورنر پنجاب بھی اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔