فلسطین ،کشمیر اور افغانستان کے دیرینہ مسائل ایک دن حل ہوجائیں گے ،پاکستان میں شاید ایک زمانے میںجمہوریت پنپ جائے گی لیکن میرا نہیں خیال کہ میرے نا پرساں علاقے ژوب کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی ناگفتہ بہ حالت سنبھل سکے گی۔ میرانہیں خیال کہ غریبوں کا یہ یتیم شفاخانہ ایک دن بنیادی سہولتوں اور ضروری انفراسٹرکچر سے آراستہ ہو پائے گا۔ معاف کیجیے،ہم تو اس اسپتال میں بنیادی سہولیات کے فقدان کارونا رورہے تھے اور حال یہ ہے کہ اس کو بڑی مشکل سے ملنے والی مشینری بھی ہر چند سال بعد چور ی ہوجاتی ہے ،ایک پشتو لطیفہ یاد آیا کہ ’’گنجے کے سر پر گنتی کے چند بال تھے، بدقسمتی سے وہ بھی ایک روز ’’گواش کرانے‘‘ (دولوگوں کے درمیان بچ بچائو کرانے) کے دوران نکل گئے‘‘۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ موٹر سائیکل اور بائیسکل کے چور تو ایک آدھ دن کی محنت کے بعدپکڑ لیے جاتے ہیں لیکن اس بدقسمت ہسپتال پر ہاتھ صاف کرنے والے چور پے درپے وارداتوں کے باوجود قانون کی گرفت میں نہیں آتے ۔ غالبا دوہزار گیارہ میں اسی ڈی ایچ کیو ہسپتال کے کئی قیمتی مشینیں چوری ہوگئیں تھیں۔ سیاسی جماعتوں اور سماجی حلقوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے ہوئے ،ہڑتالیں ہوئیں لیکن چور وں پردوہزار اکیس تک بھی ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا۔ اسی واردات کے بارے میںیہاں تک سننے کوملا کہ وہی مشینری کوئٹہ کی شاہراہ جناح پر فروخت ہوئی تھی، چونکہ چور بااثر تھے یوں کسی مائی کے لال کی اتنی جرات نہ ہوئی کہ بااثر چوروں کو بے اثر کر دے ۔ ابھی مارچ کے ابتدائی ہفتے میں ایک مرتبہ پھر شہر ناپرساں کے ہسپتال کی مین لیبارٹری سے تین عدد قیمتی مشینیں چوری ہوگئیں۔ ہمیں بتایاگیاکہ کھڑکی کے شیشے توڑ کرچورچوری کرگئے لیکن حقیقت کی آنکھ سے جب معائنہ کیاگیا توسوراخ کاسائز بہت کم جبکہ مسروقہ مشینوں کا سائزاس سے کہیں زیادہ تھا ۔بنیادی سوال یہ ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کے نصب ہونے کے باوجود چور کیمروں کی آنکھ سے کیسے اوجھل ہو گئے؟ جواب: چونکہ ،چنانچہ ، بدقسمتی سے کیمرے ناکارہ تھے اس لئے چوری کی واردات آسانی سے ہوگئی‘‘ ۔ ایک اور سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ چوری کے وقت لیب انچارچ اور چوکیدار کو کونسا سانپ سونگھ گیا تھاکہ اتنی بڑی واردات کے باوجود انہیں کانوں کان خبر نہیں ہوئی؟ اس کا جواب حاضرسروس ایم ایس نے دینا ہوگا کہ آخرماجرا کیا ہے ؟ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی لوگوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے،سیاسی جماعتوں اورسماجی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور اپنے دل کی بڑاس خوبی نکالی لیکن ہاتھ کچھ نہیں آیا۔پولیس بھی بے شک کافی ایکٹیو ہوئی اورایس ایچ او شیرعلی مندوخیل کی سربراہی میں اس فورس نے کچھ مشکوک مکانات کی تلاشی بھی لے لی تاہم شاید چوروں کے معاون زیادہ با اثر تھے اور ظاہر بات ہے کہ بااثر سے بے چاری بے اثر پولیس کیسے نپٹ سکتی ہے؟گزشتہ دنوںایک دوست نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ’’ صوبائی حکومت اگر ہمیںنئی مشینری فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے باندھنے کیلئے کچھ زنجیریں بھی ارسال کرنی چاہییں کیونکہ چور وں کوباندھنا ویسے بھی بڑا مشکل کام ہے‘‘۔ چوروںاور ڈاکووں کی مہربانی کے علاوہ ژوب کے ہسپتال پر ہر زمانے میںایسے نمائندے مہربان رہے ہیں جو ووٹ لینے کے وقت مخلص بھی ہوتے ہیں ، وفادار بھی اور عوام کے غم خوار بھی، لیکن جب وقت حقیقی غم خواری کا آتا ہے تو اُن صاحباں سے صحت کا یہ مرکزی ادارہ بھی فنکشنل نہیں ہو پاتا۔ یہاں پر ایسے بے رحم مرد اور لیڈی ڈاکٹرز بھی دیکھنے کوملے جو لاکھوں کی تنخواہیں ژوب ہسپتال کے نام پر لیتے تھے لیکن رہائش ان کی کوئٹہ یا اسلام آباد میں ہواکرتی تھی ۔ایک وقت یہاںگائنا کالوجسٹ کی تعیناتی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا ۔ عوام کی مسلسل مانگ اور منت ترلوں کے بعد جب گائناکالوجسٹ کا مسئلہ تھوڑا بہت حل ہوگیا تو بعد میں انہیں مستقل طورپر ڈیوٹی پر حاضر کروانا مسئلہ بن گیا۔ اس وقت جو لیڈی ڈاکٹرتعینات ہیں ، تقریباً تین ہفتوں سے غیر حاضر ہیں۔جب حالت اس نہج تک پہنچ گئی ہو تو ڈیلیوری جیسے نازک کیسز نمٹانے کیلئے لوگوں کے پاس صرف دو آپشن بچتے ہیں۔ یا تو انہیں سی ایم ایچ جانا پڑے گا یا پھر ڈاکٹر امین کمپلیکس ایک پرائیوٹ ہسپتال کا رخ کرنا ہوگا۔ سی ایم ایچ جانے کی صورت میں بار بار بے جا چیکنگ بھی ہمیشہ بندے کودِق کرتی ہے بھلا ہو پھر بھی امین کمپلیس کا جہاں پر ایسے کیسز آدھی قیمت پر نمٹائے جاتے ہیں اور سنا ہے کہ غریبوں کے ساتھ ہرممکن حدتک رعایت بھی کی جاتی ہے۔یاد رہے کہ ژوب کے دور دراز علاقوں کی ڈسپنسریاں ہروقت غیر فعال رہتی ہیں جس کی وجہ سے دوردرازعلاقوں کے نارمل مریضوں کاعلاج بھی ژوب سول ہسپتال میں کیاجاتاہے۔ میں آخر میں اُن ڈاکٹرز حضرات کا تہہ دل سے مشکور ہوں جو وسائل کے شدید فقدان کے باوجود نہایت خلوص کیساتھ نہ صرف ژوب شہر اور دیہی علاقوں سے آنے والوں غریب مریضوں کے علاج معالجے اور چیک اپ کیلئے مسلسل اپنی ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں بلکہ ضلع موسیٰ خیل، قلعہ سیف اللہ اور شیرانی اضلاع کے مریضوں کو بھی حسب توفیق نمٹارہے ہیں ۔اسی طرح ڈاکٹر عبدالہادی کبزئی(جولگ بھگ دس ماہ تک یہاں پر میڈیکل سپریٹنڈنٹ رہے) کی بہترکارکردگی کا اعتراف نہ کرنا بھی خیانت سمجھتاہوں۔ قابل ستائش کارکردگی کی بناء پر عوامی حلقوں میںموصوف کی دوباری تعیناتی کی مانگ بڑھ گئی ہے لہٰذا انہیں کو ایک مرتبہ پھریہاں پر خدمت کا موقع دینا چاہیے۔