اس وقت جب دنیا کورونا کی وبا کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہے‘ اقوام اور عالمی تنظیمیں وبا کے انسانوں ‘معیشت اور سماج اور نفسیات پر منفی اثرات کا جائزہ لینے میں جتی ہوئی ہیں‘وبا کے خوف کے سایے میں بھی سکیورٹی خطرات موجود ہیں گو غیر روایتی سکیورٹی چیلنجز پر دنیا کی توجہ کم ہے۔ مثال کے طور پر کورونا وبا کے دوران بھی دہشت گردی کے خطرے میں کوئی کمی نہیں دکھائی دیتی بلکہ کچھ علاقوں میں تو دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جیسا کہ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔عالمی برادری افغانستان پر کورونا وبا سے پہلے کی طرح توجہ دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ دفاعی ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ کورونا وبا کو دہشت گرد اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور حملوں کی شدت بحران میں اضافہ کر کے افغان حکومت کی بے بسی کو نمایاں کر سکتے ہیں۔ البتہ ابھی تک حملے کی شدت اور تعداد میں قابل قدر اضافہ نہیں ہوا۔ ماسوائے چند مختلف واقعات کے جو افغانستان سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ داعش نے کورونا وائرس کو خدا کاعذاب قرار دیتے ہوئے اپنے پیرو کاروں کو عبرت پکڑنے اور احتیاط کا درس دیا ہے وہاں غیر مسلموں کو بھی لاک ڈائون کے ایام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کو سمجھنے اور پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ دوحا میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ افغانستان میں تشدد کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہ ہو سکا۔ دہشت گردوں نے کابل میں زچہ بچہ ہسپتال پر 12مئی کو خوفناک کارروائی کی۔ دہشت گردوں نے بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ ہیومن رائٹس واچ نے درست اس حملے کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔افغانستان کے بحران میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے اس سے افغانستان میں استحکام کے امکانات مخدوش ہو تے جا رہے ہیں۔ طالبان اور افغان حکام کے درمیان ابتدائی مذاکرات افغانستان میں وسیع البنیاد شراکتی ڈائیلاگ کی راہ ہموار کر سکتے تھے۔ قیدیوں کے باہمی تبادلے سے بہت سے معاملات طے ہونے کی توقع تھی مگر بحران میں اضافہ خطہ میں عدم استحکام کے ساتھ عالمی سکیورٹی کے لئے خطرہ اور خطہ میں دہشت گردی کے فروغ میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔پاکستان میں بھی گزشتہ دو ماہ کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ محسوس کیا جا رہا ہے مگر اس کو کورونا وائرس کے تناظر میں دیکھنا مناسب نہ ہو گا کیونکہ پاکستان میں کورونا کے بعد کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ گزشتہ چند ماہ سے ایک بار پھر کے پی کے قبائلی اضلاع اور بلوچستان کے کچھ علاقے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں ۔ جن قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخواہ میں ضم کیا گیا ہے وہاں دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر وزیرستان کے جڑواں اضلاع میں حالیہ چند دنوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں سے اکثر افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں خاص طور پر دتہ خیل کے علاقوں میں ہوئے ہیں۔ ٹی ٹی ٹی پی‘ شدت پسنداپنے آبائی علاقوں میں اپنا اثررسوخ اور موجودگی بڑھانے کی کوشش کر رہے ہے۔ دوسرے گروپ جیسے جماعت احرار بھی باجوڑ اور اورکزئی کے علاقوںمیں اپنے آپ کو ازسر نو منظم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ پاکستانی طالبان کے پاکستان واپسی کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں جو افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور واپس اپنے آبائی علاقوں میں آ کر خود کو مضبوط کر سکتے ہیں۔بی بی سی کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں 9ہزار سے زائد طالبان دہشت گردی ترک کرنے کے وعدے پر عام معافی کے ذریعے اپنے علاقوں میں واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔شمالی اور جنوبی وزیرستان کے مقامی افراد کی جانب سے دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ ایسے افراد اپنے علاقوں میں لوٹ رہے ہیں جن کا ماضی میں دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رہا ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ چند ماہ سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی ریکارڈ کی جا رہی تھی جو یقینا مثبت چیز تھی۔ لیکن گزشتہ ہفتے بی ایل اے کے دہشت گردوں نے حملہ کر کے میجر سمیت 5سکیورٹی اہلکاروں کو شہید کر دیا تھا۔ اس قسم کے واقعات گو اکا دکا اور کم ہی ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی یہ حملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کا خطرہ ابھی تک موجود ہے ان کو ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ایران سرحد پر آر پار اپنا نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کے آرمی چیف سے بات بھی کی ہے اور حملے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دونوں ممالک کا بارڈر سکیورٹی کے حوالے سے مسلسل رابطہ رہتا ہے اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کا عزم بھی ہے مگر اس کے باجود خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ بلوچستان میں کشیدگی کی صورت حال مختلف ہے یہاں شدت پسند اپنی کارروائی کے لئے تیاری میں کافی وقت لیتے ہیں۔ اسی لئے ایک کارروائی کے بعد دوسری میں کافی وقفہ ہوتا ہے۔ بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال میں ملک کے حوالے سے بھی حساس معاملہ ہے اور حکومت ہر حال میں بلوچستان میں امن کی بحالی چاہتی ہے۔ اگر حکومت پاکستان ٹی ٹی پی کے لئے عام ماضی کا اعلان کرتی ہے اور ان افراد کو اپنے علاقوں میں آباد ہونے کی اجازت دے دیتی ہے تو اسی طرح کی پیشکش بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو بھی کی جا سکتی ہے۔ جن بلوچ رہنمائوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر رکھی ہے ان کا اب زمینی حقائق سے دور دور کا واسطہ نہیں رہا اور اب شدت پسندوں میں سے ہی نئی قیادت ابھر رہی ہے ۔حکومت کے لئے موقع ہے کہ وہ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے نئی ابھرتی قیادت سے معاملات سلجھانے کی کوشش کرکے صورتحال کو بڑھاوا دینے والے اور اشتعال پیدا کرنے والوں کی خطہ میں کمی نہیں جو علاقے میں پرتشدد کارروائی کا فروغ چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں مصالحت کے عمل کے آغاز سے نہ صرف بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہو گی بلکہ صوبے کی سکیورٹی پر اٹھنے والے اخراجات بھی کم ہو سکتے ہیں سب سے اہم سی پیک کے لئے پرسکون ماحول پیدا کر کے بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی میں اضافہ بھی ممکن ہو سکتا ہے ۔اقوام متحدہ کورونا وبا کے بعد عالمی سطح پر جنگ بندی کی بات کر چکا ہے تاکہ ہزاروں جانوروں کو بچایا جا سکے۔ خاص طور پر بچوں کو جن کی حالت کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد قابل رحم ہے۔ مذاکرات اور مصالحت کے عمل سے پاکستان اور افغانستان دونوں میں امن کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔