صحت ہماری زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے لیکن اس کا احساس تب ہوتا ہے ،جب ہم اسے کھو دیتے ہیں۔ صحت زندگی کی سب سے بڑی دولت، صحت مند زندگی گزارنا ،دنیا کی سب سے بڑی دولت کمانے کے مترادف ۔ آج لوگ پیسہ کمانے کے سلسلے میں اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ پاتے لیکن اگر انسان کے پاس صحت ہی نہ ہو تو پوری دنیا کی دولت بھی اس کے لئے بیکار ۔ سمجھدار لوگ سب سے پہلے اپنی صحت کا خاص خیال رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب ان کا جسم ان کا ساتھ دے گا تب ہی وہ ہر مشکل ترین کام کر پائیں گے۔ دنیا بھر میں میڈیکل انشورنس سسٹم بڑا مستحکم ، مگر پاکستان ان ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے جہاں پبلک میڈیکل انشورنس سسٹم کافقدان ہے،یہاں آگاہی نہ ہونے کی بنا پر مریضوں کو گھر کی جمع پونجی، بسااوقات تو گھرکے جانور تک فروخت کرنا پڑتے ہیں۔ بہت سی پرائیویٹ کمپنیاں ہیلتھ انشورنس کی سہولت فراہم کرتی ہیں، ان کی انشو رنس سہولیات میں ہسپتال میں داخل ہونے اور روزانہ کی بنیاد پرعلاج معالجہ کیلئے آنیوالے مریض شامل ہیں۔ مذکورہ انشورنس میں ڈاکٹریا سرجن کی فیس ادویات ، تشخیصی ٹیسٹ، مشاورتی فیس، زچگی، کمرے کے چارجز، کرائے اور طبی نگہداشت سے متعلقہ دیگر اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔ طبی اخراجات ہیلتھ انشورنس کی نوعیت پر منحصر ہوتے ہیں ،مخصوص صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مختلف پیکج بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ اس وقت جب آدھے سے زیادہ آبادی سیلاب سے متاثر ہے ۔ حکومت کو اور نہیں تو فی الفور متاثرہ علاقے کی ہیلتھ انشورنس ہی کروا دینی چاہیے تاکہ وہ علاج معالجہ کروا سکیں۔ عمران خاں نے بطور وزیر اعظم جب ہیلتھ صحت کارڈ کا اجرا کیا تو مسلم لیگ نے ایک ہنگامہ برپا کیا تھا کہ یہ منصوبہ میاں نواز شریف کا تھا ،چلیں اب نواز شریف تو نہیں شہباز شریف وزیر اعظم ہیں ،اس منصوبے کا اعلان ہی کر دیا جاتا لیکن کسی نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی ۔ محکمہ صحت کے مطابق سندھ بھر میں اب تک 12 لاکھ21 ہزار سے زائد افراد بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ سانس، دمہ اور سینے کی بیماریوں،معدے، جلدی امراض، ڈینگی، ملیریا اورڈائریا کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بلوچستان کے علاقوں ڈیرہ مرادجمالی ،نصیرآباد اور جعفرآبادمیں بھی سیلاب متاثرین میں گیسٹرو، ڈائریا اور جلدی امراض کنٹرول سے باہر۔ بخار، ہیضہ، آنکھ اور جلدی امراض میں کئی گنا اضافہ ۔ وفاقی وزیر صحت کہیں نظر نہیں آ رہے ،ان کی ٹیم منظر عام سے غائب ۔پیپلز پارٹی کی حالت ویسے ہی پتلی تھی ،اب سیلاب متاثرین کی ہر چیز کا کھرا ان کی فیکٹریوں میں نکل رہا ہے۔قمبر شہدادکوٹ کے علاقے میں سیاسی رہنماکی رائس مل پر سول جج کا چھاپہ، سیلاب متاثرین کے لیے بھیجے گئے 500 خیموں سمیت دیگر اشیا برآمد ۔ رائس مل مالک اور کونسلر گرفتار کر لیے گئے ۔اللہ کا فرمان ہے ۔ایک انسان کی زندگی بچانا پوری انسانیت بچانے کے مترادف ہے۔کسی بھی بااثر شخص کے لیے ایئر ایمبولنس تک پہنچ جاتی ہے لیکن غریب کے لیے پینا ڈول بھی نایاب۔ ہم ایسی قوم ہیں جو کفن بھی چوری کر لیتے ہیں ، جنازہ سامنے رکھا ہو،اورکچھ نہیںتو گلاب کے پھول ہی اٹھا لیتے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں 54 ہزار 427 افراد سانس کی بیماریوں ،42 ہزار 283 افراد جلدی امراض، 24 ہزار 446 افراد ہیضہ، 24 ہزار 675 بخار اور 3 ہزار 39 افراد آنکھوں کی بیماریوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ میں سینکڑوںافراد۔خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں 77 افراد۔لاہور میں تیس جبکہ پنجاب بھر میں 600 کے قریب ڈینگی مریض اسپتال میں داخل ہوئے ہیں۔ کیا اس وقت پرائیویٹ ہسپتال کے مالکان کوجذبہ خیر سگالی کے تحت میدان میں نہیں آنا چاہیے ۔اگر آپ لاہور ،کراچی اور اسلام آباد میں بہترین ہسپتال تلاش کریں تو مرہم کی ویب پر جاکر دیکھیں ۔ جدید معیار کے مطابق بہترین دس دس ہسپتالوں کی لسٹ آپکے سامنے آجائے گی ۔یہ سب ارب پتی ہیں۔مگر کسی نے بھی ان مریضوں کیلئے مفت میں اپنے دروازے نہیں کھولے ۔ برسہا برس سے یہ عوام سے کما رہے ہیں ،اگر اس کمائے ہوئے میں سے صرف دسواں حصہ بھی متاثرین پر خرچ کریں تو ان کی دولت میں کمی نہیں ہو گی ۔سمند ر سے ایک قطرہ پانی نکالنے سے پانی کی روانی میں کمی آتی نہ موجوں پر فرق پڑتا ہے ۔فرمایا :بے شک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک ہیلتھ کیئر سسٹم چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں متوازی کام کرتے ہیں۔پرائیویٹ سیکٹر تقریبا %70 آبادی کو جبکہ باقی ماندہ %30 آ بادی کو پبلک سیکٹر طبی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ بڑے شہروں میں ہسپتال، کلینک اور دیگر طبی مراکز تک رسائی میں کوئی دشواری نہیں ہوتی لیکن عام طور پر عوامی حفظان صحت کی سروسز تسلی بخش نہیں ہوتیں۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ ہسپتال اور بنیادی صحت مراکز سے دور رہتے ہیں ،اسی بنا پر حفظان صحت کی سہولیات تک رسائی ایک صبرآزما کام ہے۔ اس لیے ہر دو سیکٹر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے دروازے انکے مریضوں کیلیے کھولے جنکے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ سیدناابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا ،جس دن سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا ، حاکم عادل اور وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو اور وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لیے دوستی کریں ،جب جمع ہوں تو اسی کے لیے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے ۔ وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت زنا کیلئے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اس لیے نہیں آسکتا اور وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے، یہاں تک کہ اسکے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اسکی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں۔مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ آگے بڑھیں ۔پیارے دوست عبد الباسط بلوچ چیئرمین آغاز سحر گرین کمیونٹی سب سے پہلے میدان عمل میں اترے ،ابھی تک متاثرین کے درمیان کھڑے ہیں ۔محمدی میڈیکل ٹرسٹ شاد باغ بھی متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے میدان میں ہے ۔آپ بھی آگے بڑھیں تاکہ دیئے کیساتھ دیا جلتا رہے ۔