غور و فکر ہی نہ کیا تو سیکھتے کیا۔ جذبات کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں: رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں اسد اللہ خان غالب‘ اس جادوگر نے یہ کہا تھا: رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے‘ وہ لہو کیا ہے آنکھ سے بھی ٹپکے تو کیا؟ الفاظ نہیں زندگی عمل چاہتی ہے اور عمل سے پہلے تدبر و تفکر۔ فرد یا قوم‘ قوّتِ عمل پھوٹتی ہے‘ قول و فعل میں جب آہنگ ہو۔ قول و فعل یکساں ہو نہیں سکتے‘ اگر علم نہ ہو ۔ یکسوئی ممکن نہیں‘ جب تک خلوص نیت کارفرما نہ ہو۔ سرکار ﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے: کامیابی کی کلید پہل قدمی میں ہوتی ہے۔ مسلم برصغیر کا مرض یہ ہے کہ پہل قدمی سے وہ آشنا ہی نہیں۔ یہ اس کا مزاج ہی نہیں ہے‘سر پہ آ پڑتی ہے تو ہم سوچنا شروع کرتے ہیں۔ کوالالمپور کانفرنس تازہ ترین مثال ہے۔ پاکستان شریک ہو یا نہ ہو؟ شریک ہو تو کس سطح پر؟ وزیر اعظم خود تشریف لے جائیں یا وزیر خارجہ کو بھیجیں؟ سعودی عرب چاہتا ہے کہ پاکستان لاتعلق رہے۔ لاتعلق نہیں تو نچلی سطح کی نمائندگی۔ ایک عالمی کانفرنس اور وہ بھی ایسی غیر معمولی۔ جانے کب تیاریاں شروع ہوئی ہونگی۔ ظاہر ہے کئی ماہ پہلے حکومت پاکستان کو مطلع کیا ہو گا۔ اب بحران کا اندیشہ ہوا تو بھاگم بھاگ وزیر اعظم ریاض پہنچے۔ محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے عربوں کے ہاتھ سے قیادت نکل چکی۔ یہ وقت کا فرمان ہے اور کون وقت کا فرمان بدل سکتا ہے۔ ایک آدھ دن نہیں‘ یہ واقعہ عشروں میں رونما ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ دولت گاہے چھپر پھاڑ کے ملتی ہے۔ عربوں کو زمین پھاڑ کے ملی۔ دھرتی نے خزانے اگلے اور یہ خزانے‘ سب کے سب خزانے انہوں نے رائیگاں کیے۔ کوئی تخمینہ نہیں‘ سرسری سا اندازہ یہ ہے کہ لاکھوں بلین ڈالر برباد کر ڈالے۔ صنعت کاری کرتے‘ دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں بناتے۔ جس طرح میجی انقلاب کے ہنگام جاپانیوں نے کیا تھا۔ جس طرح چینیوں نے کیا۔ جس طرح سنگا پور کے لی کوان یو نے کیا۔ جاپانیوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ پیچھے رہ گئے‘ بہت پیچھے رہ گئے تو ہزاروں طلبا کو مغرب بھیجا۔ سیکھ پڑھ کر لوٹے تو نئے زمانے کی بنیاد رکھی۔ دوسری عالمگیر جنگ کی ہولناک تباہی کے باوجود‘ ایٹم بموں سے پھیلنے والی بربادی کے باوجود‘ رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے‘ بتدریج وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گئے۔ اب تیسری ہے مگر ایسی شان و شوکت‘ ایسی ظفر مندی کہ سنگا پور اور چین کے سوا شاید ہی کوئی دوسری مثال ہو۔ اپنی اخلاقی اقدار‘ تمدن اور روایات کی انہوں نے حفاظت کی۔ اپنا تشخص باقی و برقرار رکھا‘ عملاً مگر جاپان مغرب کا حصہ ہے۔ معدنی اور زمینی وسائل نہ ہونے کے برابر‘ النّادرکالمعدوم۔ اس کے باوجود صنعت کاری میں وہ سرفراز ہیں‘ دمکتی ہوئی ایک مثال ہیں۔ عربوں نے اپنی دولت نمائش میں لٹا دی۔ عالم اسلام میں فروغ کا کوئی نمونہ ہے تو ترکی اور ملائشیا۔ ملائشیا کسی شمار قطار میں نہ تھا‘ تین میں نہ تیرہ میں۔ دانائی یہ کی کہ عصری حقائق سے آشنا ایک متوازن مزاج لیڈر کو قیادت سونپ دی۔ قائد اعظم نے کہا تھا: آدھی جنگ موزوں قیادت کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے۔اس راز سے مہاتیر خوب آشنا تھے کہ نمو کے لئے ایک کم از کم قومی اتفاق رائے درکار ہوتا ہے۔ ترکوں میں زندگی تھی۔ غلامی سے ہمیشہ محفوظ رہے۔ صدیوں تک وہ ہمالہ کی طرح تھے اور یورپ ان کی ترائی۔ ٹہلتے ہوئے ترک افواج وسطی یورپ تک چلی جاتیں۔ شہنشاہ سلیم کا انتقال مالٹا میں ہوا‘ جو ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یونان ان کے انگوٹھے تلے تھا۔ آسٹریا اور چیکو سلواکیہ بھی۔ مشرق وسطیٰ پہ صدیوں حکمران رہے؛تاآنکہ زوال کا وقت آ پہنچا: یہ نماز عصر کا وقت ہے ‘ یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی وہ قیامتیں جو گزر گئیں‘ تھیں امانتیں کئی سال کی پہلے قدامت پسند دیمک بن گئے۔ پرنٹنگ پریس تک کی مخالفت کی‘ جس طرح دیو بند کے ایک ممتاز عالم دین نے لائوڈ سپیکر کو مکروہ ٹھہرایا تھا۔ جس طرح سعودی عرب کے شیوخ ٹیلیفون کی مزاحمت کرتے رہے۔ پھر مصطفی کمال اتاترک ابھرے۔ اب یہ دوسری انتہا تھی۔ رسم الخط ہی بدل ڈالا۔ ’’ثریا‘‘ کو اب وہ ’’تھوریا‘‘ کہتے ہیں۔پردے پر پابندی لگا دی۔ دینی تعلیم ممنوع قرار پائی۔ ایسا شاندار جنرل کہ گیلی پولی کے معرکے میں یورپ کی متحدہ افواج کو روند ڈالا۔ یورپ ہی کیا آسٹریلیا کے دستے بھی شامل تھے۔ سڈنی کو دھوکہ دینے کے لئے‘ لندن کے اخبارات جھوٹی خبریں چھاپتے۔ تاثر دیا جاتا کہ مغربی افواج پیش قدمی کر رہی ہیں‘ حالانکہ گاجر مولی کی طرح ‘ترک انہیں کاٹ کاٹ کر پھینک رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ آج بھی باسفورس کی ریت پہ ٹھوکر لگے تو ایک آدھ گوری کھوپڑی جھانکنے لگتی ہے۔ اتنا بڑا جنرل اور ایسا کمتر حکمران۔ سیاسی اور سماجی اداروں کی جڑیں تاریخ میں ہوتی ہیں۔ تاریخ اور تمدن میں۔ ماضی کبھی ختم نہیں ہوتا۔ دراصل وہ ماضی ہوتا ہی نہیں۔ وہ ہمارے حال میں تحلیل ہو جاتا اور مستقبل کی صورت گری کرتا ہے۔ مصطفیٰ کمال نے ماضی سے رشتہ توڑا اور عالم اسلام سے اپنی راہ الگ کی تو زندگی سے تعلق ٹوٹ گیا۔ جوش عمل جاتا رہا ۔ فکری طور پر قوم بانجھ ہوتی گئی۔ اسرائیل کو تسلیم کیا۔ فی الجملہ اقتدار فوج کے حوالے کر دیا۔انسانی صلاحیت آزادی میں پروان چڑھتی ہے۔ آزادی کے ساتھ ڈسپلن میں۔ آزادی نہ ہو تو قوم ایک ریوڑ اور ڈسپلن نہ ہو تو ساری صلاحیت رائیگاں۔ دریا سے نہیں آبیاری نہروں سے ہوتی ہے۔ ترکیہ کو نئی زندگی اسلامی تحریکوں نے عطا کی۔ عالم اسلام کی دوسری مذہبی سیاسی تحریکوں کے برعکس ترک مسلمان حقیقت پسند نکلے۔اذیت اور جبر کے مہ و سال نے انہیں سیکھنا سکھایا۔ جذباتی توازن عطا کیا۔گاہے اب بھی جذباتیت غلبہ پاتی ہے۔ جناب اردوان میں بھی۔ اس میں مگر کوئی شبہ نہیں کہ خود داری ان میں بلا کی ہے۔ مالک پہ توکل ہے اور اپنے آپ پہ اعتماد۔ قوم پرستی نے انہیں مہمیز کیا۔ ایمان اور عقیدے کی طرف واپسی نے حیات نو بخشی۔ وگرنہ اقبالؔ نے یہ کہا تھا: چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیّاری بھی دیکھ امریکی عزائم واضح ہیں۔ واشنگٹن کے سائے میں‘ مشرق بعید میں آسٹریلیا اور جرمنی کا اتحاد‘ جنوب مغربی ایشیا میں بھارت کی بالادستی۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی بالاتری۔ یہی نیو ورلڈ آرڈر ہے۔ ہدف ان کا چین ہے اور عالم اسلام۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ گزشتہ چودہ سو برس میں چین اور عالم اسلام نے ایک ساتھ نمو پائی۔ بتاشے کی طرح عرب بیٹھ گئے۔ پرسوں اترسوں نہیں ایک صدی پہلے عربوں کے زوال کا آغاز ہوا تھا۔ اقبالؔ نے یہ کہا تھا: یہی شیخِ عرب ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیمِ بوذر و دلقِ اویسِ و چادرِ زہرا اور یہ کہا تھا: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دین مصطفی خاک و خوں میں لوٹتا ہے ترکمان سخت کوش تاریخ اب نیا موڑ مڑ گئی ہے۔ عالم اسلام کی قیادت عرب کے ہاتھ سے نکلی اور عجم میں چلی گئی۔ جس طرح پہلی صدی تمام ہونے کے بعد علم عجم کا ورثہ ہو گیا تھا۔ سرکارﷺ نے فرمایا تھا: خدا کی قسم علم اگر کسی ستارے پر بھی ہو گا تو کوئی عجمی اسے اتار لائے گا۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ ہر قوم کے لئے موت لکھی ہے۔ بہت پہلے آپؐ نے ارشاد کیا تھا ’’تباہی ہے عربوں کی‘‘ عربوں نے اسرائیل سے مفاہمت کر لی تو سپر ڈال دی۔ وسائل وہ پہلے ہی رائیگاں کر چکے۔ ہمتیں ٹوٹ چکیں اور ہمت ٹوٹ جائے تو کچھ باقی نہیں بچتا۔ قائد اعظم کی پسندیدہ ضرب الامثال میں سے ایک پرتگالی ہے:دولت گئی تو کچھ بھی نہ گیا‘ وقت رائیگاں ہوا تو بہت کچھ ضائع‘ عزت اور وقار رخصت ہوا تو کچھ بھی باقی نہ بچا۔ عمر بھر قوم کے اقبال کا اقبالؔ وہ ماتم کرتے رہے۔ ہم نے مگر سیکھ کر نہ دیا۔ غور و فکر ہی نہ کیا تو سیکھتے کیا۔ جذبات کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں: رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں