دس سال میں چار فضائی حادثے اور ایک ہزار کے قریب جانوں کا ضیاع۔ یہ بطور ریاست پاکستان اور اس کے اداروں سول ایوی ایشن و پی آئی اے کے لئے باعث بدنامی و ندامت ہے‘ دنیا بھر میں ہوائی سفر محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان میں غیر محفوظ ہو کر رہ گیا‘ پی آئی اے ایک زمانے میں دنیا کی بہترین ایئر لائن تھی‘1962ء میں ایشیا کے صرف دو ممالک کی ایئر لائنز کے پاس جیٹ طیارے تھے ان میں سے ایک پاکستان تھا‘ دوسرا جاپان۔ جناب فیض احمد فیض نے پی آئی اے کے لئے ’’باکمال لوگ لاجواب سروس ‘‘کا ماٹو تجویز کیا تو یہ اسم باسمیٰ تھا‘ مسافروں پر تو انگلی اٹھائی جا سکتی تھی کہ ان میں سے کتنے واقعی باکمال ہیں مگر ’’لاجواب سروس‘‘ پر کسی کو شک تھا نہ اعتراض۔ اب مگر کیا ہے؟قابل اجمیری نے پتے کی بات کی تھی ؎ وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا! دوسرے قومی اداروں کی طرح پی آئی اے نے زوال کا سفر برسوں میں طے کیا‘ سیاسی مداخلت‘ سفارشی بھرتیاں‘ لوٹ مار اور وہ سب کچھ جو ہمارے خود پرست‘ نالائق اور اقربا پرور حکمرانوں نے دیگر ریاستی اداروں میں روا رکھا‘ ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان کے دور میں کوئی شخص سوچ نہیںسکتا تھا کہ پی آئی اے میں سفارشی بھرتی ہو گی‘ جانچ پڑتال اور مرمت کے قواعد و ضوابط پر کوئی سمجھوتہ یا طیارے کی پرواز و لینڈنگ میں معمولی تاخیر‘ ہرگز نہیں‘ ریاستی اداروں میں سفارشی بھرتیوں کی بدعت قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوئی پھر چل سو چل محترمہ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے دور میں قومی اداروں کے سربراہان کا تقرر ذاتی پسند و ناپسند اور وفاداری کو مدنظر رکھ کر کیا جانے لگا۔ سٹیل ملز ‘ ریلوے‘ پی آئی اے کا بیڑا غرق ہوا اور ہماری قومی ایئر لائن کے علاوہ پاکستان ریلوے میں سفر انسانی جانوں کے لئے خطرہ بن گیا۔ ایئر مارشل ارشد ملک نے بطور سی ای او پی آئی اے کی باگ ڈور سنبھالی تو ڈھلوان کا سفر رکا‘بہتری کے آثار پیدا ہوئے مگر طاقتور مافیا باز نہ آیا‘ یہ قومی ادارے طاقتور مافیاز اور ان کے نااہل‘ نالائق ‘ کام چور اور لٹیرے آلہ کاروں کے لئے سونے کی کان ہیں کوئی سونے کی ان کانوں سے دستبردار ہونا نہیں چاہتا۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور ارشد ملک کو اصلاح احوال کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کی ضرورت۔ ملک کی طاقتور شخصیت نے اخبار نویسوں کی ایک محفل میں انکشاف کیا کہ ان کی جاننے والی ایک خاتون برطانیہ میں انتہائی پرکشش تنخواہ اور مراعات سے دستبردار ہو کر پی آئی اے کو سدھارنے کے مشن پر پاکستان تشریف لائیں اور غالباً ارشد ملک سے مل کر سعی و تدبیر کا آغاز کیا مگر چند ہفتے بعد مایوس و مضمحل نظر آئیں کہ طاقتور مافیا نے ان کا جینا حرام کر دیا تھا‘ مفت کی تنخواہیں‘ کام چوری کے الائونسز‘ خریداری میں ہیر پھیر اور قیمتی سامان کی خرد برد‘ جن کو سازگار ہے وہ بھلا پی آئی اے یا کسی دوسرے ادارے میں ایماندار‘ اہل اور باصلاحیت شخص کو برداشت کیوں کریں۔ قومی اداروںمیں نااہل‘ بددیانت اور خوشامدی افراد کی سرپرستی اور لائق ‘ پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل اور دیانتدار لوگوں کی حوصلہ شکنی کے باعث کارکردگی صفر اور انسانی جانوں کے لئے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے مگر اس کی پروا کسی کو نہیں‘ بارہ تیرہ سال قبل ملتان میں فوکر طیارے کا حادثہ ہوا‘ عملے سمیت سارے مسافر جل کر راکھ ہو گئے‘ لاہور ہائی کورٹ کے جج محمد نواز بھٹی ‘ جسٹس نذیر صدیقی معروف نیورو سرجن افتخار راجہ اور بہائوالدین ذکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نذیر احمدکے علاوہ ہمارے دوست اقبال ہاشمی کی نوبیاہتا صاحبزادی اور مخدوم جاوید ہاشمی کی بھانجی کنول اقبال نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ اس جان لیوا حادثے کے بعد ایئر پورٹ منیجر کے لئے قومی ایوارڈ اور پروموشن کی سفارش کی گئی۔ حتمی منظوری کے مرحلہ پر جنرل پرویز مشرف سیخ پا ہو گئے‘ انہوں نے سول ایوی ایشن کے متعلقہ افسر کو جھاڑ پلائی کہ طیارہ تباہ ہو گیا‘ مسافر ایک بھی زندہ نہیں بچا‘ ایئر پورٹ منیجر کو کس چیز کا انعام دیا جائے۔ نیرنگی سیاست دوراں مگر یہ ہے کہ جونہی جنرل پرویز مشرف نے استعفیٰ دیا ‘فائل کی گرد جھاڑ کر منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کی گئی اور انہوں نے بکمال شفقت و بندہ پروری یہ سفارش منظور کر لی‘ حق بحقدار رسید۔انہی غلط بخشیوںکے سبب ریاستی ادارے اور ملک اس حال کو پہنچے کہ یہاں قومی خزانہ محفوظ ہے نہ کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو ‘ ریلوے کا حادثہ ہو یا فضائی سانحہ ‘چند روز شور مچتا‘ سینہ کوبی ہوتی اور پھر سابقہ معمول کے مطاسق کاروبار زندگی چلنے لگتا ہے‘ گزشتہ دس سال کے دوران پیش آنے والے تین فضائی اور درجن بھر ریلوے حادثوں میں سے مجال ہے کہ کسی ایک کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں کوئی بڑی مچھلی کیفر کردار تک پہنچی ہو‘ جب انسانی زندگی کی کوئی قدرو قیمت نہیں اور زود فراموش قوم اتنے بڑے جان لیوا حادثات کو آسانی سے بھول جاتی ہے تو پھر کسی حکمران کو کیا پڑی ہے کہ وہ قومی دولت لوٹنے اور ریاستی اداروں کو تباہ کرنے والے مافیا سے باز پرس کرے‘ کبھی کوئی قانون کے شکنجے میں آئے بھی تو دے دلا کر‘ سودے بازی کر کے‘ سیاسی مفاہمت کے ذریعے بآسانی جان چھڑا لیتا ہے‘ احتساب کا کوئی اعتبار باقی ہے نہ تحقیقات کی ساکھ برقرار۔ برسوں تک ہم نے جو بویاوہ کاٹنے کا وقت عنان اقتدار نااہلوں کے سپرد کئے رکھی اور اب بھی صورت حال صرف اس قدر مختلف ہے کہ عمران خان کے دامن پر کرپشن کا داغ باقی نہیں‘ اس کی ٹیم کے کئی ارکان الا ماشاء اللہ اس تہمت سے پاک ہیں‘ اپنا کام وہ کریں نہ کریں دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کے ماہر۔ وزارت سائنس ‘ وزارت مذہبی امور کے معاملے میں دخل اندازی کی خوگر اور وزارت ریلوے کو خارجہ و سیاسی امور میں مہارت کا دعویٰ‘نتیجہ معلوم۔ ریاستی امور جب بھی نااہلوں کے سپرد ہوں گے گڑ بڑ لازم۔ حادثے کی شفاف تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کی سرکوبی‘پی آئی اے سمیت تمام ریاستی اداروں سے سفارشی‘کام چور اور بددیانت عناصر کا قلع قمع 97شہدا کی قربانی کا ثمر ہو گا‘ کاش موجودہ حکومت ان 97افراد کی قربانی کو ضائع نہ جانے دے‘ جو عید کی خوشیاں منانے اپنے گھروں کو چلے مگر اپنے خاندان سمیت پوری قوم کو سوگوار کر گئے‘ اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق۔