وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جان بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ ادویات ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ خام مال اور سروسز مہنگی ہونے کے باعث قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا۔ قانونی طور پر چونکہ فارما سیوٹیکل کمپنیاں خود قیمتیں بڑھانے کے بجائے حکومت کے طے شدہ نرخوں پر ادویات فروخت کرنے کی پابند ہیں‘ اس لیے جب بھی نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے ذمہ داروں کے تعین اور وجوہات کے متعلق ایک تنازع کھڑا ہو جاتا ہے۔ ڈرگ اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی بڑی تعداد چونکہ ملٹی نیشنل ہوتی ہے اس لیے ان کے لیے ریاستوں کو الگ سے قانون سازی کرنا پڑتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یہ طے ہے کہ فارما سیوٹیکل کمپنیاں سال میں ایک بار ادویات کی قیمتوں کا جائزہ لیتی ہیں اور ان میں اضافے کا حق رکھتی ہیں تاہم ادویات کی قیمتوں میں اضافہ دیگر اشیاء کے مہنگے ہونے سے ذرا مختلف معاملہ ہے۔ زیادہ قیمتوں کا مطلب یہ ہے کہ ادویات ساز کمپنیوں کو ری بیٹ کی شکل میں زیادہ حصہ ملے۔ یہ ری بیٹ ڈرگ کمپنیوں کے اکائونٹ میں جاتی ہے۔ انشورنس کمپنیوں کو ملتی ہے اور مالکان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مریض اس سارے عمل میں ایسا صارف دکھائی دیتا ہے جس کی مجبوری سے باقی فریق اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی ان غیر ملکی کمپنیوں کی تعداد گذشتہ دس پندرہ سالوں میں چالیس سے چوبیس ہوئی ہے۔ ان غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کا دوا سازی کی صنعت کی پیداوار میں تقریباً پنتالیس فیصد حصہ بنتا ہے۔غیر ملکی کمپنیوں کے مقابلے میں پاکستان میں کام کرنے والی مقامی دوا ساز کمپنیوں کی تعداد سات سو پچاس ہے۔ تاہم ان میں سے سو کمپنیاں مقامی کمپنیوں کی پیداوار کا تقریباً ستانوے فیصد پیدا کرتی ہیں جب کہ باقی چھ سے پچاس کمپنیوں کا اس پیداوار میں حصہ صرف تین فیصد ہے۔غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم فارما بیورکا کہنا ہے کہ پاکستان میں دوا سازی کی صنعت کی بنیاد غیر ملکی کمپنیوں نے ہی رکھی تھی، ان کے سرمائے اور تحقیق نے پاکستان میں دوا سازی کی صنعت کو پروان چڑھایا تاہم بد قسمتی سے دوا سازی سے متعلق پالیسیوں میں عدم تسلسل نے بہت سی غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ کر واپس جانے پر مجبور کر دیا جو غیر ملکی کمپنیوں کی پاکستان میں گھٹتی تعداد سے واضح ہے۔ مقامی کمپنیاں بھی قیمتیں مقرر کرنے کی پالیسی کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں اور اس پر عملدرآمد نہ ہونے سے تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں بننے والی ادویات کا تقریباً سارا خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے جس کی لاگت ڈالر کی قدر سے جڑی ہوئی ہے۔ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ملکی کمپنیوں کے کاروبار پر بھی اثر پڑا ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ مقامی کمپنیاں اتنا زیادہ نفع کما رہی ہیں کہ ہر سال سینکڑوں ڈاکٹروں کو بیرون ملک سیر و تفریح پر بھیجتی ہیں۔ ان کے گھروں میں ہوم اپلائنسز کا انتظام کرتی ہیں اور بعض صورتوں میں ڈاکٹروں کو گھر اور کلینک بھی بنا کر دیے ہیں۔ یوں ان کی کاروبار میں گھاٹے کی شکایت میں کوئی حقیقت دکھائی نہیں دیتی۔انڈیا میں اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ کمپنیوں کو اپنے شیئر ہولڈرز کو منافع میں حصہ دینا ہوتا ہے جس کی وجہ سے انہیں اچھی قیمت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ پاکستان میں ان کمپنیوں کی ملکیت صنعتکاروں کے پاس ہے جس کو جتنا منافع ملتا ہے اپنے پاس ہی رکھتا ہے اس لیے ادویات کی کم قیمتوں کے باوجود کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا ہیں۔پھر یہ بھی ہے کہ دواؤں کے سستے ہونے کو کسی ملک میں لوگوں کی قوت خرید کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے۔ پاکستان میں کچھ دوائیں سستی مل جاتی ہیں لیکن وہ دوائیں جو درآمد کی جاتی ہیں ان کہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ مثلاً کینسر کی دوائیں اور کتے کے کاٹنے کی ویکسین پاکستان میں بہت مہنگی دستیاب ہیں۔ اس سلسلے میں یہ کہہ دینا کہ پاکستان میں ساری ادویات سستی ہیں صحیح نہیں ہو گا۔ ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے سالٹ اگر چین سے درآمد کئے جا رہے ہیں تو یہ لازمی طور پر اس سالٹ سے سستا ہوگا جو یورپ سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اس لیے مختلف ممالک سے منگوائے گئے سالٹ کی قیمت کسی دوا کی قیمت تعین کرتی ہے۔پاکستان میں ادویات کی قیمتیں پراڈکٹ ٹو پراڈکٹ دیکھنے کی ضرورت ہے، ان کی لاگت کا تجزیہ ہو اور پھر پرائس مقرر کی جانی چاہیے۔ ایک کمپنی ایک دوا کا خام مال سو ڈالر پر منگواتی ہے کچھ دنوں بعد وہی خام مال پچاس ڈالر پر مل رہا ہوتا ہے تو یہ کمی صارفین تک منتقل نہیں ہوتی۔ گزشتہ سال اپریل میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ رواں برس جولائی میں ایک بار پھر قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ حالیہ اضافہ ایک سال کے دوران دوسری بار ہوا ہے۔ پاکستان میں مدت سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ معالج کسی برانڈ کی دوا تجویز کرنے کے بجائے اس کے جنرک نام کو نسخے میں تجویز کریں۔ وہ دوا جو ایک ہزار کی مل رہی ہے اسی نسخے کی دوا دوسری کمپنی دو سو روپے میں دے رہی ہے۔ حکومت نے دو سال کے اقتدار میں اس حوالے سے قابل قدر پیش رفت نہیں کی۔ قیمتوں میں اضافے کا نظام کئی خرابیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ کرپشن کی شکایات ہیں۔ یہ صورت حال مریضوں اور ان کے لواحقین کے لیے قطعی طور پر حوصلہ افزا نہیں۔ سرکاری شعبے کی محدود استعداد کے باعث اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ادویات کی قیمتوں‘ فراہمی اور معیار کا نظام شفاف رکھا جائے۔