پرانے زمانے کی بادشاہتوں میں محلوں کے اندر غلام گردشیں ہوا کرتی تھیں۔ ان غلام گردشوں میں سازشیں، سرگوشیاں اور پھر کہانیاں جنم لیا کرتی تھیں۔ غلام گردشیں خلافت عثمانیہ کی ہوں کہ بنو عباس کی، سلاطین دہلی کی ہوں یا مغل بادشاہت کی، بنواُمیہ کی ہوں یا رومن ایمپائر کی، کہانیوں کی ابتدا سرگوشیوں سے ہوتی ہے۔ سرگوشیاں … سازشیں اور کہانیاں۔ ہمارے ہاں بھی آج کل راولپنڈی سے اسلام آباد تک کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ کیا لکھوں؟ کیا نہ لکھوں؟ اب بات بزدار، محمود خان،چودھری سرور اور چودھری پرویز الٰہی سے ذرا آگے کی ہے۔ بات وزیر اعظم خان سے شروع کرتے ہیں۔ پاکستان کے اس Chrismatic لیڈر کا ہوم ورک پتہ نہیں تھا یا نہیں مگر لوگوں کی توقعات بہت زیادہ تھیں۔ مسائل اور وسائل سے کہیں زیادہ۔ کپتان کی حکومت نے اسے بری طرح ایکسپوز کردیا، اس قدر کہ شاید اب اسے کسی سیاسی اپوزیشن کے باقاعدہ دھکے اور دھرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ خان صاحب کی ٹیم میں ایسا ایسا نایاب ہیرا ہے جس کی قدر صرف خان صاحب ہی جانتے ہیں۔ شہریار آفریدی سے خسرو بختیار تک، فردوس عاشق اعوان سے بریگیڈیئر اعجاز شاہ تک بقول شاعر کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں۔ میڈیا ایکسپوز کر رہا ہے اور اس ٹیم کو ایکسپوز ہونے کی جلدی بھی بڑی ہے۔ خان کے ایڈوائزرز میں شاید کوئی ایک بھی نہیں جو انہیں اکنامکس، گورننس اور سیاست پر مشورہ دے سکے۔ جو مشورہ دیتے ہیں ان کے مشورے پنجاب سے کے پی کے تک صاف دیکھے جاسکتے ہی۔ کچھ کہانیوں اور کچھ سکرپٹ میں سے ایک یہ ہے کہ سسٹم کے ناخدائوں کا خیال ہے کہ پارلیمانی نظام اس قدر سیاسی ابتری کا سبب بنتا ہے کہ وزیر اعظم سکون سے کچھ بھی ڈلیور نہیں کرسکتا۔ کیوں؟ کیونکہ اس کے پارلیمانی کولیگز اسے مسلسل بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ وزارتوں کے لیے، مراعات کے لیے، فوائد کے لیے۔ اندر کے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان اپنے ساتھیوں کے دبائو پر جھلا کر کہہ اٹھے کہ اس سے بہتر تو صدارتی نظام ہی ہوتا ہے۔ آپ لوگ اس طرح دبائو تو نہ ڈال سکتے۔ KPK کے گورنر عمران خان کی بنیادی ٹیم کے رکن ہیں۔ وہ صدارتی نظام کی وکالت کس کے کہنے پر کر رہے ہیں؟ نیا پاکستان سیاسی انتظام کے اعتبار سے اس قدر سوفٹ ہے کہ اگر وزیر اعظم کابینہ کے اجلاس کی صدارت کررہے ہوں، ساتھ دو کرسیاں اور لگوادی جائیں، دونوں پر کسی ادارے کے احباب بیٹھ جائیں اور وہ کچھ کہہ دیں کہ کابینہ ہی نہیں بیوروکریسی بھی ہکی بکی رہ جائے تو پارلیمانی نظام کی افادیت پر سوال تو اٹھیں گے نا؟ عمران خان کو یقین ہے کہ انہیں پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ مگر وہ اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت پر خوش نہیں ہیں۔ وہ ہمیشہ اس صورتحال کے دبائو میں رہتے ہیں۔ اعظم سواتی ہوں کہ اعجاز شاہ، سب کے اپنے اپنے صنم خانے ہیں۔ ایسے میں عمران اس نتیجے پر پہنچنے والے ہیں کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔ عوام سے دوبارہ رجوع کیا جائے، نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے اور دوبارہ الیکشن کے بعد 97ء کے میاں نواز شریف کی طرح دو تہائی اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں لوٹا جائے۔عوام کے سامنے اس کے لیے زور دار وکالت اور اپیل کی جائے۔ ایک کیئر ٹیکر سیٹ اپ بنایا جائے جس کی ڈوریں ٹیکنو کریٹس کے ہاتھ میں ہوں۔ یہ سیٹ اپ مالیاتی ایمرجنسی نافذ کردے۔ سپریم کورٹ سے استدعا کی جائے کہ انتخابات تب تک ملتوی کردیئے جائیں جب تک وطن عزیز اس بھنور سے باہر نہیں آجاتا، یا خان عوام کے اندر اپنی مقبولیت کا گراف اور بلند نہیں کرلیتا۔اس دوران احتسابی ادارے کرپٹ سیاسی عناصر سے میدان کو پاک کردیں۔ مگر اس سے قبل موجودہ بنیادی جمہوریتوں کے نمائدوں کو فارغ کردیا جائے اور ایک لوکل گورنمنٹ بل کے ذریعے ان کے اختیارات معطل کرکے اگلے الیکشن تک بیوروکریسی کے سپرد کردیئے جائیں۔ اس بیوروکریسی کے سپرد جو ’’میرٹ‘‘ پر ڈلیور کرے۔ ان کہانی کاروں کے مطابق اس کے علاوہ ایک پلان بی بھی ہے۔ اگر سپریم کورٹ ’’قومی مفاد‘‘ کی اس درخواست کو ماننے سے انکار کردے تو پھر ایک دوسرا سکرپٹ بھی تیار ہے۔ اس فلم کا مسودہ یوں ہے کہ بنیادی جمہوریتوں کے غیر جماعتی انتخابات کرائے جائیں اور ان کے ذریعے عمران خان یا …؟… کو ملک کا صدر منتخب کرلیا جائے۔ ایسا سسٹم لانے کے لیے ایک ریفرنڈم کرایا جائے۔ سوال کا جواب پاکستان کے غیور اور باشعور عوام ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ میں دیں۔ آئین میں تبدیلی اس وقت ممکن نہیں کیونکہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں نیب زدہ سیاسی اپوزیشن ’’شو آف پاور‘‘ کررہی ہے۔ ایسے میں نگران سیٹ اپ میں ایسے چیف منسٹرز ، ٹیکنوکریٹس، چیف سیکرٹریز، وزرا، سیکرٹریز، ایڈوائزرز اور سپیشل اسسٹنٹ لائے جائیں جو سینٹ کے اگلے الیکشن تک یہ بندوبست کردیں کہ پی ٹی آئی سینٹ میں بھی مطلوبہ اکثریت حاصل کرلے۔ اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز کی کہانیوں کے مطابق ایسا تبھی ممکن ہے اگر اپوزیشن مکمل طور پر گھٹنے ٹیک دے۔ ملک میں سیاسی کمانڈ اینڈ کنٹرول ایسا ہوجائے کہ اختلاف کی آواز ہی نہ ابھرے۔ مرکز اور صوبوں میں ایک ہی جماعت کا غلبہ ہو۔ اگر اپوزیشن ہو بھی تو بس اتنی جتنی ضرورت ہو۔ ان کہانیوں، افواہوں، تجاویز اور سکرپٹس میں دم نہ بھی ہو تو یہ طے ہوگیا ہے کہ نئے پاکستان کا نقشہ بنانے والے اپنے خاکے کو Re-Visit ضرور کرنا چاہیں گے۔ کیونکہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ گورننس کا بحران شدید تر ہے۔ ہمارے پڑوس میں بھارت، افغانستان اور ایران سے خاصے تشویشناک سگنلز آرہے ہیں۔ (جاری ہے)