پاکستان جس طرح کے پے درپے سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے دوچار ہے انہیں دیکھتے ہوئے منیر نیازی کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا عمران خان پر حملے اور ان کے الزامات کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اعظم سواتی نے ایک دل دھلا دینے والی پریس کانفرنس کرڈالی۔ کہتے ہیں کہ ان کی بیگم اور پوتیاںشرم کے مارے ملک چھوڑ گئی کیونکہ ان کی فیملی ایک ویڈیو عام کردی گئی۔ اس پریس کانفرنس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفے نواز کھوکھر نے اعظم سواتی سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس اقدام کو مسترد کیا۔ نون لیگ کے مفتاع اسماعیل نے بھی دکھ کا اظہار کیا۔ رات گئے تک غالباًکوئی بھی قابل ذکر پاکستانی نہیں تھا جس نے اس اقدام کو مسترد نہ کیا ہو۔ دنیا بھر میں زیرحراست لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا رواج اب ختم ہوچکا ہے۔خاص طور پر سیاسی مخالفین پر تشدد کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ بغیر اجازت کسی کی ویڈیو بنانا اور نجی معاملات میں مداخلت کو سنگین ترین جرائم میں گردانہ جاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ اس طرح کے معاملات پر قانون سازی کرے۔ بلااجازت ویڈیوز بنانے اور عام کرنے والے کو عبرت ناک سزا سنائی جائے۔ اسی طرح فون ٹیپ کرنے کی بھی اجازت ہر مجاز اتھارٹی سے وآپس لی جائے ۔عدلیہ بھی اس حوالے رہنما اصول طے کرسکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں سابق اور موجودہ وزیراعظم کی گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اس طرح کے واقعات نے پاکستان کے امیج کو دنیا بھر میں بری طرح متاثر کیا ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ جس ملک میں وزیراعظم کی گفتگو بھی ٹیپ کی جاتی ہے اس کے ساتھ کون کاروبار یا پھر راز ونیاز کرنا پسند کرے گا۔ گزشتہ چند ماہ سے جاری سیاسی بحران سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ نظرآتا کہ تمام ادارے اپنے آئینی کردار تک محدود ہوجائیں۔ سیاسی جماعتوں کو آزادنہ اور شفاف الیکشن میں مقابلہ کرنے دیا جائے اور عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ پاکستانکا اقتدارکس کو سونپتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں بچا جس پر شہریوں کا اعتماد قائم ہو۔عالم یہ ہے کہ معمولی معمولی واقعات یا حادثات پر بڑے سیاستدان اور صحافی مطالبہ کرتے ہیں کہ اس حادثے کی تحقیقات کسی عالمی ادارے بلکہ اقوام متحدہ سے کرائی جائے۔ مطلب یہ ہے ملک کے اندر جتنے بھی ادارے ہیں وہ اپنی ساکھ کھوچکے ہیں۔عالمی اداروں کو داخلی معاملات میں مداخلت کے لیے پکارنے کا عمل کسی وقت بھی کوئی خطرناک رنگ اختیار کرسکتا ہے۔ ایک بارغیر ملکی ادارے ملک میں گھس گئے تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ۔ ؎ وقت کرتاہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا وزیراعظم شہباز شریف نے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اپنی خواہش سے سنبھالی ہے۔ اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے اندر سیاسی استحکام کے لیے راہ ہموار کریں نہ کہ عدم استحکام میں اضافہ کریں۔ ظاہرہے کہ حتمی ذمہ داری وزیراعظم کی ہے کہ وہ ملک کو سیاسی بحران سے نکالیں۔ ستر کی دہائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔ احتجاجی تحریک جاری تھی۔ جیلیں حکومت مخالف سیاستدانوں اور کارکنان سے بھر چکی تھیں۔ احتجاج میں شہری ہرروز گھائل ہوتے اور کچھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے تھے ۔ برادر ملک سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا ڈھول ڈالا ۔ وزیراعظم بھٹو، حفیظ پیرزادہ ،مولانا کوثر نیازی،مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور نواب زادہ نصراللہ خان کے درمیان ازسر نو عام الیکشن پر اتفاق ہوگیا تھا۔ اگلی صبح پریس کانفرنس میں معاہدے کا اعلان ہونا تھا کہ جنرل ضیا الحق نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان بھی مصالحت پاکستان میں تعینات اس وقت کے برطانوی سفیر نے کرائی تھی۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہوگی کہ کسی بردار ملک کی مدد لی جائے جو پی ڈی ایم کی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ثالثی کراسکے تاکہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام قائم ہوسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آزادانہ اور شفاف الیکشن کرانے کے میکانرم پر حکومت خود مکالمے کا آغاز کرے۔ بہتر ہوتاہے کہ چیف الیکشن کمشنر خود ہی قومی مفاد میں اپنے عہدے سے مستعفٰی ہوجاتے تاکہ کوئی غیر متنازعہ شخصیت اس عہدے پر فائز ہوتی ۔ دوسرا بڑا ایشو الیکشن کی تاریخ طے کرنا ہے۔ اس مسئلہ کو بھی انا کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ ویسے بھی پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات خارج ہوچکے ہیں۔ نیب کے پر کاٹ کردیئے گئے ہیں ۔احتساب کے اداروں کو بے دست وپا کردیاکیاگیا ۔ پی ڈی ایم کے مرکزی رہنماؤں کے مقاصد پورے ہوچکے ہیں۔ اب اقتدار سے چمٹے رہنے کا کوئی جواز ہے اور نہ فائدہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ ضمنی الیکشن میں حکمران اتحاد کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ معاشی میدان میں بھی وہ عوام کو رتی بھر ریلیف نہ دے سکے۔ نون لیگ کے اکنامک ہٹ مین اسحاق ڈار جو وزیرخزانہ مقرر ہونے سے پہلے ہوا میں اڑرہے تھے اب کئی ہفتوں سے جھاگ کی طرح بیٹھ چکے ہیں۔ ڈالر کی اڑان بدستور قائم ہے۔ اشیا صرف کے نرخون میںکمی کے آثار نہیں۔ اگلے تین ہفتوں میں تازہ دم عسکری لیڈرشپ بھی منظر عام پر آچکی ہو گی۔ امید ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ دوستانہ روابط استوار کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔تلخی کی موجودہ فضا اور ٹکراؤ کی کیفیت کا ہر حال میں خاتمہ ہوناچاہیے۔ ملک کی مقبول ترین جماعت اور عسکری اداروں کے درمیان ٹکراؤ ملک کے مفاد میں نہیں۔ ماضی میں ایسے ٹکراؤ سے جو زخم جسد قومی پر لگے وہ ابھی تک مندمل نہیں ہوسکے۔پاکستان تحریک انصاف اور خاص کر عمران خان کے ساتھ لاکھوں نہیں کروڑوں پاکستانیوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ ان کی سیاست کا مرکز خیبر پختونخوا، پنجاب اور کراچی ہیں۔ جہاں کے شہریوں کی ایک بھاری تعداد ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اب وہ الیکشن کی سیاست بھی خوب سیکھ گئے ہیں۔ ٹکر کے لوگوں کو وہ میدان میں اتارتے ہیں۔ سیاسی میدان میں نون لیگ اور پی پی پی کو ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری بیانیہ کی جنگ میں اداروں کو غیر جانبدار ہوتا ہوا محسوس اور نظر بھی آنا چاہیے۔