وزیر اعظم عمران خان نے سروسز چیفس کے ساتھ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم کو قومی سلامتی کو درپیش خطرات اور ان خطرات سے نمٹنے کی پیشہ وارانہ صلاحیت سے متعلق تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ وزیر اعظم نے علاقائی اور ملکی صورت حال پر سکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی کو سراہا۔ وزیر اعظم کی اس حساس بریفنگ کو دو طرح سے دیکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے دو روز قبل ایک انٹرویو میں سول ملٹری تعلقات مثالی ہونے کی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج ان کی ہدایات پر عمل کرتی ہے اور عسکری قیادت حکومت پر ایسا کوئی دبائو نہیں ڈال رہی جس کی مزاحمت کی جائے۔اس بیان کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہقومی سلامتی کو لاحق خطرات اور حکومتی پالیسیوں کے سلسلے میں وزیراعظم کو عسکری قیادت کی جانب سے رائے بدلنے پر مجبور نہیں کیا جاتا ۔ وزیر اعظم کے اس بیان کو حکومت سے بعض بدگمان حلقوں نے بلا جواز ہدف تنقید بنایا۔ اس بریفنگ کو ایک دوسرے رخ سے دیکھنے والے مشرق وسطیٰ کی صورت حال ‘ عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے اور پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ممکنہ دبائو‘ ایف اے ٹی ایف کی شرائط‘ ملکی معیشت اور پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی بھارتی کوششوں کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔یہ معاملات سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور قومی اتفاق رائے کا مطالبہ کرتے ہیں، ذمہ دار جمہوری فضا میں اپوزیشن ایسے معاملات سے لا تعلق نہیں ہوتی ، یہ پاکستان کی نابالغ سیاست ہے کہ اپوزیشن جماعتیں غیر اہم امور کو قوم کی زندگی و موت کا معاملہ بنانے پر تلی نظر آتی ہیں۔ پاکستان کا اسرائیل کے حوالے سے ایک طے شدہ موقف ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن گوریان پر واضح کر دیا تھا کہ جب تک مظلوم فلسطینیوں کے حق آزادی کو اسرائیل تسلیم نہیں کرتا اس وقت تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا ۔ غیر مقبول ہو کر شکست کھانے والے قریب رخصت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دور امریکہ کی کھلے عام اسرائیل کی حمایت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کی ہدایت کی‘ اسرائیل کے کہنے پر ایران کے ساتھ فائیو پلس ون ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کی۔ یہ اسرائیلی فرمائش ہی ہے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہا۔ بحرین‘ عرب امارات وغیرہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات صدر ٹرمپ کے دور میں صرف افغانستان کے باعث فعال نظر آئے دیگر حوالوں سے دو طرفہ تعلقات تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں‘ امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان کن برادر ممالک کی بات رد نہیں کرتا اسی لئے خدشہ ہے کہ وہ کسی قریبی دوست ملک کو پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لئے استعمال نہ کر لے۔ ایسا ہوا تو پاکستان کی افرادی قوت اور برادرانہ تعلقات دونوں دائو پر لگ سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال پیدا ہونے سے جو نئے مسائل سامنے آ سکتے ہیں ان سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی پہلے سے تیار ہونی چاہیے۔ دو ہفتے قبل پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور متعدد اہم ممالک کے سفرا کو ایک ڈوزیئر حوالے کیا ہے۔ اس ڈوزیئر میں ایسے شواہد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ یہ ریکارڈ اس حوالے سے اہم ہے کہ بھارت مدت سے عالمی برادری کو یہ کہہ کر گمراہ کر رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سرپرست اور مرکز ہے۔ بھارت کی اسی مہم کی وجہ سے پاکستان پچھلے تین سال سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اعتراضات دور کرنے میں الجھا ہوا ہے۔ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھنا‘ رقوم کی منتقلی پر ایف اے ٹی ایف کے اعتراضات اور کورونا کے باعث معاشی سرگرمیاں سست پڑنے سے قرض دینے والے اداروں کا رویہ بھی بدل گیا ہے۔ کچھ عرصے سے بڑی اپوزیشن جماعتوں کے کچھ رہنمائوں کے بیانات میں فوج اور دوسرے ریاستی اداروں پر کیچڑ اچھالنے کی روش دکھائی دینے لگی ہے۔ جمہوری تقاضوں اور جمہوری ڈھانچے سے لاتعلق و محروم یہ سیاسی جماعتیں سادہ لوح لوگوں کو بتا رہی ہیں کہ ان کے جرائم پر گرفت دراصل سیاسی انتقام ہے۔ فوج کو سیاست میں ملوث کیا جاتا ہے‘ افسروں کا نام لے کر الزام تراشی ہوتی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ متعدد بار واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ سیاسی قیادت کے احکامات کے پابند ہیں اور اپنا یہی کردار نبھا رہے ہیں۔ پاکستان داخلی و خارجی سطح پر کئی چیلنجز کا مقابلہ کر رہا ہے‘ کہیں سیاسی جنگ ہے‘ کہیں سی پیک کی شکل میں تجارتی و معاشی مفادات ہیں‘ دہشت گردی اور معاشی بحالی کے معاملات ہیں۔ ان حالات میں حکومت کی تمام تر نیک نیتی اور خلوص ملک میں انتشار اور سیاسی عدم استحکام پھیلانے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان بہت سے بحرانوں اور حکومتوں کی رخصتی کی وجہ بنتا رہا ہے۔ بیرونی مسائل کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اگر سیاسی و عسکری قیادت مل کر اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہتی ہیں تو اس پر اعتراض بلا جوازاور غیر دانشمندانہ عمل سمجھا جائے گا۔