مکرمی !معاشی ترقی کا شور مچانے والے شاید غریب کی چیخیں سننا ہی نہیں چاہتے کہ وہ کس حال میں جی رہے ہیں۔ ان کی صبح کس طرح ہوتی ہے اور ان کے گھروںمیں رات کو کیا قیامت کے مناظر ہوتے ہیں؟بچوںکے دودھ سے لیکر گھر کے راشن تک کے معاملات میں گھروں میں لڑائی جھگڑے عام ہوتے جارہے ہیں۔ بیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا شخص کس طرح اپنے گھریلو اخراجات پورے کررہا ہے؟ عوام کو آج دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں، غربت کا یہ عالم ہے کہ پہلے لوگ اپنے بچوں کو فروخت کیا کرتے تھے مگر اب بچے خود ہی بھوک سے مررہے ہیں۔ آج لوگوںکے حالات زندگی اس نہج پر آپہنچے ہیں کہ دس روپے کی چینی اور پانچ روپے کی پتی خرید کر صبح کا ناشتہ کررہے ہیں۔ کئی گھرانے تو اس سے بھی محروم ہیں۔میں ایک عام آدمی ہوں اور اس وقت جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو شدید مایوس ہوںکہ اس کا فائدہ کیاہوگا کیونکہ ایسی ہزاروں تحریریں موجود ہیں جوکہ صرف کاغذات کی حد تک محدود ہیں میری حکام بالا سے التماس ہے کہ سیاسی مخالفیں کے لتے لینے کے ساتھ کچھ عام آدمی کا بھی سوچیں۔ احتساب ضرور کریں مگر اس کے ساتھ غریبوں کو ریلیف دینے کے لیے بھی اقدامات کریں جو روزگار کے مواقع فراہم کیے اور مہنگائی میں کمی کے بغیر ممکن نہیں۔ (علی رضا رانا)