2018ء میں 25جولائی کی سہ پہر 92چینل کی الیکشن ٹرانسمیشن میں انتخابی نتائج آنے سے قبل بحث یہ چل پڑی کہ مستقبل کا وزیر اعظم کون ہو گا‘ مجھ سے زیادہ قابل اور باخبر تجزیہ نگاروں کی رائے تھی کہ میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ اُمیدوار ہیں‘ حکمرانی کا تجربہ ‘ مفاہمتی انداز اور جوڑ توڑ کی بے پایاں صلاحیت ان کا سیاسی اثاثہ ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں مقبولیت اضافی خوبی۔ایک دوست بار بار چودھری نثار علی خاں کا نام لیتے جو میاں شہباز شریف‘ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے بیک وقت چہیتے اور تجربہ کار سیاستدان ہیں‘ عمران خان کے بارے میں میرے علاوہ صرف ظفر ہلالی صاحب بضد تھے یا پھر عامر متین صاحب جن کا ہماری طرح خیال تھا کہ تحریک انصاف سو سے زیادہ نشستیں لے کر ملک کی سنگل لارجسٹ پارلیمانی پارٹی ہو گی‘ چودھری نثار علی خاں کے حامی دوست کا اصرار بڑھا تو میں نے عرض کیا کہ وزیر اعظم کے لئے قومی اسمبلی کا رکن ہونا ضروری ہے جو چودھری صاحب بنتے نظر نہیں آ رہے‘ تجزیہ کار دوست بولے آپ کے خیال میں کیا چودھری صاحب دونوں نشستیں ہار جائیں گے اور وہ بھی غلام سرورخان ایسے کمزور اُمیدوار سے۔ میں نے عرض کیا کہ چودھری صاحب نے میاں نواز شریف سے بغاوت کی اور مریم نواز شریف کو ہدف تنقید بنایا جو بڑے میاں صاحب کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ انہیں 2002ء کے انتخابات میں میاں محمد اظہر کی دونشستوں پر ناکامی کی کہانی سنائی جس کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کا ہما میاں اظہر کے سر سے اُڑ کر چودھری صاحبان کے پسندیدہ میر ظفر اللہ خان جمالی کے سر پر جا بیٹھا‘ میاں اظہر کی ناکامی میں دیگر عوامل کے ساتھ میاں نواز شریف کی بھر پور مخالفت اور اپنے ساتھ یار غار کو ہر قیمت پر ہرانے کی حکمت عملی شامل تھی‘ میری رائے تھی کہ 2018ء میں نثار علی خاں کی پوزیشن وہی ہے جو 2002ء میں میاں اظہر کی تھی ۔میاں صاحب ہی نہیں دنیا بھر کے حکمران اور سیاستدان اپنے مخالفین سے زیادہ باغیوں اور بے وفائوں سے نفرت کرتے ہیں‘ بڑے میاں صاحب نثار علی خاں کو ہرانے کے لئے ہر ممکن سعی و تدبیر کریں گے کہ یہ ان کی اَنا کا مسئلہ ہے۔ عارف نظامی صاحب نے میری تائید کی۔ یہ واقعہ چودھری نثار علی خاں سے متعلق ہونے والی چہ میگوئیوں پر یاد آیا‘ چودھری نثار علی خاں نے بطور رکن پنجاب اسمبلی حلف اٹھانے کا فیصلہ یقینا سوچ سمجھ کر اور طویل مشاورت کے بعد کیا‘حلقہ جاتی سیاست کی مجبوریوں کی بنا پر اپنی آبائی نشست وہ کسی مخالف کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنا نہیں چاہتے خواہ اس کا تعلق مسلم لیگ(ن) سے ہو یا پی ٹی آئی سے‘ امریکہ میں مقیم ان کے صاحبزادے تکنیکی وجوہات کی بنا پر الیکشن لڑ نہیں سکتے جبکہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لئے وہ تیار نہیں کہ غلام سرور خان اور دیگر مخالفین مضبوط رکاوٹ ہیں‘ عمران خاں سے ذاتی تعلق کسی سے مخفی نہیں ‘دونوں ایچی سونین ہیں اور ایک دوسرے کے محرم راز!ایک دوست کا دعویٰ ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ کے سکینڈل سے بھی نثار علی خاں نے عمران خان کو آگاہ کیا جس کے نتیجے میں غلام سرور خان اب تک وضاحتیں کرتے پھرتے ہیں۔2018ء کے انتخابات کے بعد وہ تحریک انصاف جوائن کر کے بآسانی وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے مگر دیرینہ دوستی کے باوجود چودھری صاحب عمران خاں کی حلقہ بگوشی اور تحریک انصاف میں شمولیت پر آمادہ نہیں ۔قارورہ ان کا مسلم لیگ اور شریف خاندان سے ملتا ہے مگر میاں نواز شریف کے دل سے وہ اُتر چکے اور مریم نواز شریف انہیں پیٹھ میں خنجر گھونپنے والا انکل سمجھتی ہیں۔ میاں شہباز شریف البتہ تاحال ان کے مداح ہیں اور پارلیمانی سیاست میں واپسی کے لئے جن لوگوں نے انہیں آمادہ کیا ان میں چھوٹے میاں صاحب شامل ہیں منظر نامہ یہ بنتا نظر آ رہا ہے کہ جلد یا بدیر مسلم لیگ(ن) میاں شہباز شریف کی حکمت عملی کے مطابق تصادم اور محاذ آرائی کے رائیگاں سفر کو ترک کر کے عملیت پسندی کی راہ پر گامزن ہو گی اور اس سفر میں نثار علی خاں میاں شہباز شریف کے دست و بازو ہوں گے جن کی راولپنڈی اور اسلام آباد میں ساکھ برقرار ہے‘ اگر 1995ء کی طرح پنجاب میں بزدار حکومت اپنے بوجھ تلے دبتی ہے اور نوبت ایک ایسے سیاسی بحران تک پہنچتی ہے جس میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے نامزد امیدوار کی کامیابی ممکن نہیں رہتی تو عارف نکئی کی طرح کسی متفقہ اُمیدوار کی ضرورت پڑے گی جس پر عمران خان کو اعتراض ہو نہ میاں شہباز شریف کے لئے انکار کی گنجائش اور ’’نہ‘‘ ’’نہ‘‘ کرتے کرتے میاں نواز شریف بھی وسیع تر قومی مفاد میں راضی برضا نظر آئیں‘ آخر میاں صاحب نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ بھلا کر وردی کو ووٹ بھی تو دیا جس کے طعنے آج تک مسلم لیگی ارکان کو برداشت کرنے پڑتے ہیں ‘نثار علی خاں تو پھر بھی سویلین ہیں۔پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کا یہی طرہ امتیاز ہے بقول حماد غزنوی: ہمارا اور تمہارا ساتھ ممکن ہے یہ دنیا ہے‘یہاں ہر بات ممکن ہے فی الحال یہ دور کی کوڑی نظر آتی ہے اور میاں نواز شریف پنجاب اور مرکز میں کسی تبدیلی کے حق میں نہیں۔ان کے ذاتی تجزیے کے مطابق پنجاب کی بزدار حکومت حسن کارکردگی کے طفیل مسلم لیگ(ن) کے راستے کے کانٹے چننے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے‘ میاں صاحب اپنے ساتھیوں کو باور کرا رہے ہیں کہ موجودہ حکومت مزید دو اڑھائی سال تک اپنی ناقص کارگزاری سے عمران خان کا رومانس ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ یوں تحریک انصاف کا حشر بھی پیپلز پارٹی سے مختلف نہیں ہو گا جو سندھ تک محدود ہو گئی۔البتہ اگر اندرونی خلفشار اور مختلف گروپوں کی کھینچا تانی کے باعث پنجاب میں تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے تو نئے انتخابات سے بچنے کے لئے درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے اور بڑے میاں صاحب یہ سوچ کر رکاوٹ نہیں ڈالیں گے کہ ’’اپنا‘‘ مارنے کے بعد کم از کم سائے میں ضرور ڈالے گا۔ ویسے بھی میاں شہباز شریف اب پہلے کی طرح مجبور محض نہیں اور وہ مسلم لیگ کو اپنی عملیت پسندانہ پالیسی کے مطابق چلانے کے لئے پرعزم نظر آتے ہیں جس کا اندازہ اگلے چند ماہ میں ہر ایک کو ہو گا۔ جہانگیر ترین گروپ کی فی الحال عثمان خان بزدار اور وفاقی حکومت سے صلح ہو گئی ہے مگر اس قدر کھل کر سامنے آنے کے بعد دونوں طرف اندیشوں اور خدشات کا خاتمہ آسان نہیں اور بھلے ‘محبت وہی انداز پرانے مانگے مگر ایک سرائیکی شاعر کے بقول ؎ بھاویں رُٹھڑا یار مینج پوے پر چس نئیں رہندی اوہا (خواہ روٹھے دوست ایک دوسرے کو منا لیں مگر ماضی کا لطف اور اعتماد برقرار نہیں رہتا) مرکز اور صوبے میں لگائی بجھائی والے سکون سے نہیں بیٹھیں گے اور وہ بھی جن کے کھونٹے پر یہ گروپ ناچ رہا ہے ؎ غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے کہتے ہیں ہاتھ سے لگائی گانٹھیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں‘بجٹ کی منظوری تک گروپ کے تحفظات دور نہ ہوئے اور بجٹ کی منظوری کے بعد کسی فریق نے ٹھینگا دکھانے کی کوشش کی تو حالات کی گتھی پھر الجھ سکتی ہے اور کنگ میکر ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتا ہے۔ فی الحال اتنا ہی۔