پنجابی کی کہاوت ہے ’’چور نالوں پَنڈ کاہلی‘‘ اردو میں ’’مدعی سست گواہ چست‘‘ کا کم و بیش یہی مفہوم ہے‘ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی عسکری‘ سیاسی‘ سفارتی ناکامی اور طالبان کی کامیابی کا اعتراف صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ جوبائیڈن سے لے کر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن تک کر رہے ہیں۔ صدر جوبائیڈن نے منگل کی صبح پریس بریفنگ کے ذریعے قوم سے جو خطاب کیا وہ عمر رسیدہ سیاستدان کی پختگی اور تدبر کا شاہکار تھا‘ امریکہ اور اپنی غلطیوں کا برملا اعتراف، اشرف غنی کی نااہلی اور تین لاکھ فوج کی بزدلی کا بھانڈا پھوڑا اور طالبان کی سرعت انگیز فتوحات کو حیرت انگیز قرار دیا۔ یہ تک کہا کہ ہم افغانستان کی تعمیر نو کے لیے نہیں گئے تھے‘ نہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں مگر صرف تیس سال کے عرصے میں دو سپر پاورز کی پسپائی سے عبرت حاصل کرنے اور اپنے اندازے و تجزیئے کی غلطی پر شرمندہ ہونے کے بجائے ہمارے سیکولر اور لبرل دوست ڈھٹائی پر اتر آئے اور مختلف توجیہات پیش کر رہے ہیں۔ میڈیا پر لایعنی بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ طالبان جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ ان کے دل کی بات یامحض عالمی برادری کو دھوکہ دہی کی واردات؟ کیا طالبان حکومت مستحکم ہونے پر ایک بار پھر 1996ء کی طرح من مانی تو نہیں کریں گے؟ افغانستان غیر ملکی دہشت گردوں کی پناہ گاہ‘ اقلیتوں اور خواتین کے لیے عقوبت خانہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی آماجگاہ تو نہیں بن جائے گا؟ گزشتہ دو ہفتوں سے مختلف صوبوں اور تین چار دن سے دارالحکومت کابل پر قابض طالبان اپنے سنگدل‘ ظالم‘ وحشی‘ قاتل‘ بے ضمیر‘ بے حمیت مخالفین سے عفو و درگزر کا سلوک کر رہے ہیں۔ ہرات کے کمانڈر اسماعیل خان کو جس عزت و احترام کے ساتھ انہوں نے رخصت کیا اس کی جدید تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ ماضی بعید میں مسلم حکمران اور فاتحین البتہ اپنے دشمنوں سے حسن سلوک کرتے رہے۔ کابل میں ننگے سر خواتین سے کسی نے تعرض کیا نہ مجالس عاشور کو روکا گیا اور نہ کابل میں بسنے والے واحد یہودی کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔ کل کلاں کو عام معافی کے اعلان سے مستفید ہونے والے یہی عناصر شرارتوں پر اتر آئیں‘ امریکہ‘ یورپ اور بھارت کی شہ پر فتنہ و فساد برپا کریں‘ اسلامی اقدار و روایات کی پامالی اور مادر پدر آزاد‘ بے حیا کلچر کے فروغ کو بھی اپنا پیدائشی حق منوانے پر تل جائیں تو ظاہر ہے کہ ریاست ملکی آئین و قانون اور شرعی تقاضوں کے مطابق ردعمل ظاہر کرے گی اور یہ فطری تقاضا ہو گا۔ کوئی بھی حکومت اور ریاست قبل از وقت یہ یقین دہانی نہیں کرا سکتی کہ وہ مستقبل میں بھی باغیوں‘ فتنہ گروں اور غیر ملکی آلہ کاروں کی ہر سازش‘ شرارت اور خلاف آئین و قانون افعال کا موثر سدباب نہیں کرے گی اور بیس سالہ جدوجہد‘ قربانیوں کو رائیگاں جانے دے گی‘ جس طرح امریکہ و یورپ میں سے کوئی طالبان کو یہ ضمانت دینے کی پوزیشن میں نہیں کہ افغان بھگوڑے اشرف غنی‘ عبدالرشید دوستم‘ کمانڈر عطا‘ امراللہ صالح‘ حمداللہ محب وغیرہ اندرون و بیرون ملک ’’اچھے بچے‘‘ بن کر رہیں گے اور افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے، اسی طرح طالبان بھی یہ یقین دہانی نہیں کرا سکتے کہ وہ افغانستان کو ہمیشہ امریکہ و یورپ کی باجگزار ریاست بنائے رکھیں گے، کسی اسٹامپ پیپر پر دستخط کرنے سے تو وہ رہے‘ دوحا معاہدے پر عملدرآمد کے مرحلے میں طالبان نے ایک ایک شق کی پابندی کی جبکہ امریکہ مسلسل خلاف ورزی کرتا رہا‘ بالآخر رسوائی اس کا مقدر بنی۔ طالبان کے ترجمان (جو عملاً وزیر اطلاعات و نشریات کے درجے پر فائز ہیں) اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جو کچھ کہااس کو عملی سانچے میں ڈھالنے کی اولین شرط یہ ہے کہ امریکہ و یورپ امارات اسلامی افغانستان کو تسلیم کریں، تعمیر نو کے لیے دس بارہ ارب ڈالر کا پیکیج اور افغان زرمبادلہ کے ذخائر کو ضبط کرنے سے باز رہیں کہ یہ دشمنی پر مبنی اقدام ہے۔ امریکہ کو ایران کے ساتھ طویل تنازع سے سبق سیکھنا چاہیے کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہوا‘ اگر طالبان اپنے وعدوں اور دعوئوں سے پیچھے ہٹے تو ان کی اخلاقی حیثیت متاثر ہوگی اور عالمی برادری کوئی مخالفانہ کارروائی کرنے میں حق بجانب۔ افغان قیادت کا وفد گلبدین حکمت یار‘ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سے مل کر نہ صرف انہیں حکومت سازی کے مشاورتی عمل میں شریک کر رہا ہے بلکہ ان افغان لیڈروں کو فول پروف سکیورٹی بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ امکان یہ ہے کہ طالبان حکمت یار اور عبدالہ عبداللہ کو مستقبل کی حکومت میں کوئی کردار بھی سونپ سکتے ہیں، ان کے نامزد افراد کو کابینہ میں نمائندگی مل سکتی ہے لیکن اگر امریکہ و یورپ اشرف غنی‘ دوستم‘ کمانڈر عطا‘ امراللہ صالح ٹائپ اپنے گماشتوں اور افغان قوم کے غداروں کی نمائندگی پر اصرار کریں تو یہ طالبان کی بیس سالہ جدوجہد پر پانی پھیرنے اور نئی حکومت کو یرغمال بنانے کی خواہش ہوگی جسے پورا کرنا مشکل ہے۔ سوویت یونین کے بعد امریکہ کی شکست و پسپائی سے ناراض دل شکستہ اور مایوس ’’دانشور‘‘ ، امریکہ، بھارت اور اس کے گماشتہ افغان حکمرانوں پر غصہ نکالنے کے بجائے طالبان کی کامیابی سے شاداں عناصر پر طنزیہ جملے بازی میں مشغول ہیں‘ کہنا ان کا یہ ہے کہ طالبان کا افغانستان اور امارات اسلامی کا شورائی نظام اگر پسندیدہ اور مثالی ہے تو خوشی کے شادیانے بجانے والے کتنے لوگ کابل‘ قندھار‘ جلال آباد‘ ہرات یا غزنی جانے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کو تیار ہیں‘ جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے اسلامی تشخص‘ مشرقی کلچر‘ عسکری صلاحیتوں اور قومی اقدار و روایات سے نالاں‘ بھارتی جمہوریت‘ سیکولرازم اور لبرل ازم کے شیدائی ان دوستوں نے آج تک نریندر مودی کے گجرات کو ماتربھومی بنانے کے بارے میں کتنی بار سوچا اور جب امریکہ بہادر نے کابل کو روشن خیالی‘ ترقی و خوشحالی کا مرکز بنا رکھا تھا یا اس سے پہلے برزنیف نے افغانستان کو انسان دوست‘ ترقی پسند کمیونسٹ ریاست میں ڈھالا تو وہ جنرل ضیاء الحق کے تنگ نظر پاکستان میں کیوں جھک مارتے رہے‘ اپنے خوابوں کی سرزمین کا رخ کیوں نہ فرمایا‘ ترانے تو آپ بھی اس وقت امریکہ اور سوویت یونین کے گاتے تھے،پاکستان کو انہی دونوں سامراجی قوتوں کی طفیلی ریاست بنانے کے خواب دیکھتے رہے، لیکن یہ محض جواب آں غزل ہوگا۔ Tit for Tat۔ پاکستان تمام تر کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک مسلم ریاست ہے‘ اسلامی طرز حیات کے فروغ کے لیے کوشاں جدید خداداد مملکت‘ طالبان ہوں یا غیر ملکی تسلط اور فوجی جارحیت کے خلاف نبرد آزما فلسطینی و کشمیری کلمہ گو ہمارے دل کے اس قدر قریب محض اس بنا پر ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے تربوزی ترقی پسندوں کی طرح دھن‘ دولت‘ طاقت اور ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا‘ سچے مومن کی طرح طاقت کو حق ماننے کے بجائے حق کو طاقت منوانے پر تلے رہے‘ دوسرے ذہنی غلاموں اور شکم پروروں کی طرح سامراج کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بجائے تن‘ من‘ دھن کی بازی لگائی اور زندگی کے بجائے موت سے پیار کیا، جو لوگ کامیاب رہے ان کی خوشی میں شریک ہونا فطری عمل ہے جس طرح ہمارے ترقی پسند دوستوں کی افسردگی‘ مایوسی،جھنجلاہٹ اور غصہ سو فیصدی فطری تقاضا‘ امریکہ، کینیڈا کی طرح سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات میں بھی لوگ تلاش روزگار کے لیے جاتے ہیں‘ بڑے بڑے ملحد اور سرمایہ پرست کاروبار اور روزگار کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں‘ سیکولربھارت کا نہیں ۔ اللہ نے چاہا تو پاکستان اور افغانستان بھی کسی نہ کسی دن اس قابل ہوں گے کہ لوگ ان دونوں ممالک کا ویزا حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں لگے نظر آئیں۔ غلامی کی زنجیریں آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہیں۔ ایک کے بعد ایک سامراجی طاقت ناکامی اور رسوائی کا مُنہ دیکھ رہی ہے۔ عروج‘ زوال آشنا ہے تو انشاء اللہ کسی نہ کسی دن ہماری پستی کا سفر ختم اور عروج مقدر ہوگا ؎ نو مید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی