جس روز بلاول زرداری نواز شریف سے جیل میں ملاقات کرکے گئے اس کے اگلے روز نواز شریف نے ایک نئے میثاق جمہوریت کی بات چھیڑ دی۔اسی نئے میثاق جمہوریت کی گونج بلاول کی اپوزیشن کی دی گئی افطارپارٹی میں بھی سنائی دی جس کی مہمان خصوصی مریم نواز تھیں۔ جس وقت چودہ مئی 2006 ء کو لندن میں میاں نواز شریف اور بے نظیربھٹو کے درمیان میثاق جمہوریت پہ دستخط ہو رہے تھے،دونوںکے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ بظاہر کئی معقول شقوں پہ مشتمل اس میثاق جمہوریت کے پس پردہ ایک مخصوص ذہنیت اور آمرانہ سوچ کارفرما تھی۔یعنی یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ پاکستان دو جماعتی نظام کی طرف بگٹٹ دوڑ رہا ہے اور جیسے ہی جنرل مشرف سے جان چھوٹے گی یہی دو پارٹیاں قوم کی قسمت کا فیصلہ کریں گی۔بار ی باری باریاں لیں گی اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔ راوی نے یقینا زرداری اینڈ کمپنی اور خاندان شریف کے حق میں کامل دس سال چین ہی چین لکھا کیونکہ بے نظیر بھٹو کی قسمت میں ایک دلخراش موت لکھی تھی۔ اس میثاق جمہوریت کے ایک سال بعد ہی وہ ایک حادثے میں جس کے ذمہ داروں کا تعین کبھی نہ ہو سکے گا،شہید ہوگئیں۔ ان کے پیچھے ایک مشکوک سی وصیت ہوا میں لہرا دی گئی۔ میثاق جمہوریت اور بے نظیر کی شہادت کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ پہلی باری سب پہ بھاری زرداری کی ہو۔ سو یہی ہوا۔ پانچ سال پیار محبت سے گزر گئے۔میثاق جمہوریت کے ہی مطابق اگلی باری نواز شریف کی بنتی تھی جو مشرف کے دئیے زخم سینت سینت کر رکھے تحمل سے باری کا انتظار کررہے تھے۔یہی ہوا بھی۔میثاق جمہوریت میں کہیں یہ نہیں لکھا تھا کہ ایک تیسرا آکراس رومان پرور ماحول میں کھنڈت ڈالے گا تو کیا کریں گے؟انہوں نے فرض کرلیا تھا کہ تیسرا کوئی ہوگا ہی نہیں۔جس وقت یہ لندن میں میثاق جمہوریت لکھ رہے اور اپنے تئیں قوم کی قسمت کے فیصلے کررہے تھے،ایک تیسرا ان دونوں کی قسمت میں لکھا جارہا تھا اور وہ عمران خان تھا۔ 2013 ء کے انتخابات ، عمران خان کے انتخابات تھے۔اس الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی تھی۔بات چار حلقوں کی نہیں تھی۔اگلی باری کی تھی۔یہ بات عمران خان کو سمجھ آگئی تھی لیکن چار حلقوں کی وکٹ پہ کھیلنا بہت ضروری تھا۔ اسے جاننے والے جانتے ہیں کہ جب وہ کھیلنے کا فیصلہ کرتا ہے تو دراصل وہ جیتنے کا فیصلہ کرچکا ہوتا ہے۔ اوپر میں نے میثاق جمہوریت کی کچھ معقول شقوں کی بات کی تھی۔ شاید کسی کو یہ شقیں یاد بھی نہ ہوں۔ درحقیقت یہ غیر رسمی طور پہ طے ہو گیا تھا کہ مشرف ملک کا آخری آمر ہوگا ۔ اس کے بعد فوج کوئی ایڈوینچر نہیں کرے گی۔ایسا وقت اور حالات نے ثابت کیا۔حتی کہ نواز شریف کی بارہا کھلی اشتعال انگیزیوں کو بھی نظر انداز کردیا گیا جن سے بہت ہلکے پھلکے ایڈوینچر پہ میرے عزیز ہموطنو کی نوبت آجایا کرتی تھی۔ اٹھاون بی کانٹاتو دونوں نے مل کر ختم ہی کردیا تھا۔ یہ بھی اس اعتماد کی علامت تھا کہ جمہوریت کی پٹری پہ دوڑتی ٹرین کو اب کہیں اور سے بھی خطرہ نہ ہوگا۔ میثاق جمہوریت میں کچھ باتیں اہم تھیں۔باقی سب خانہ پری تھی۔یعنی آئین کو مشرف سے پہلے والی شکل میں بحال کرنا کیونکہ موصوف نے لیگل فریم ورک آرڈر اور ساتوین ترمیم کا خاصا تیکھا بگھار لگا دیا تھا۔اصل شق تو وہ تھی جس کے تحت تین بار وزیراعظم بننے کی پابندی کو ختم ہونا تھا ورنہ اس سارے کھکیڑ کا فائدہ۔اس کے علاوہ نیشنل سیکوریٹی کونسل ختم کرکے متوقع وزیر اعظم کو ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کا چیئرمین بھی بننا تھا۔اسی ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کے زیر انتظام جس کا سربراہ وزیراعظم ہوتا،ایسا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تشکیل دینے کی سفارش بھی کی گئی جو مستقبل میں جوہری رازوں کی چوری کے امکانات کو روک سکے۔ جوہری رازوں کی چوری کا اندیشہ کیوں موجود تھا اور فوج کے ہوتے ہوئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری وہ سیاست دان کیوں اٹھانا چاہتے تھے جن کی جائدادیں لندن اور پیرس میں اور خفیہ بینک اکاؤنٹ سوئٹزر لینڈ میں موجود تھے۔اسکے علاوہ اس تمام معاہدے میں جو کچھ تھا وہ سیاست میں فوج کے کردار کو روکنے کے لئے تھا کیونکہ بے نظیر تو آئی جے آئی کی ڈسی ہوئی تھیں۔دفاعی بجٹ کے آڈٹ پہ منتخب وزیر اعظم کی سپریم کمانڈ اور اس کے ضیاع یعنی جرنیلوں کی جائدادوں اور کاروبار سے متعلق چھان بین اور روک ٹوک پہ بھی کئی شقیں موجود تھیں۔یہ سب لندن میں بیٹھ کر وہ سیاست دان کررہے تھے جن پہ میگا کرپشن کے کئی کھلے اور چھپے الزامات تھے۔فاروق لغاری ، منیر احمد کو دیے اپنے طویل انٹر ویو میں جسے بعد ازاں انہوں نے کتابی شکل دی ، بے نظیر اور نواز شریف پہ میگا کرپشن کے نہ صرف کھلے الزامات لگاتے ہیں بلکہ ان کے ثبوت بھی موجود ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ موصوف صدر پاکستان کے اس بااختیار عہدے پہ رہنے کے باوجود جس کی رو سے انہوں نے بے نظیر حکومت بر طرف کی، بدعنوانی کے ان الزامات کو کسی عدالت میں لے کر کیوں نہیں گئے۔ خود نواز شریف کی بدعنوانیوں کے ثبوت ان کے پاس موجود تھے لیکن وہ خاموش رہے۔ ممکنہ طور پہ نواز شریف جو وکیل کی بجائے جج کرنے میں معروف تھے ، اس راہ میں رکاوٹ بنے ہوںایک تہجد گزار نیک نام سابق صدر پاکستان کو لیکن کیا مجبوری ہوسکتی ہے۔ عدلیہ تحریک اور ججوں کی بحالی کے بعد افتخار چوہدری بھی اپنی شفافیت کھو بیٹھے تھے۔عدلیہ غیر ضروری طور پہ متحرک ہوگئی تھی لیکن کون کہہ سکتا تھا کہ پاناما کیس ان ہی عدالتوں میں ایک ایسا شخص لے کر جائے گا جو بظاہر تہجد گزار بھی نہیں تھا، جس کا ماضی اسے بار بار ڈسنے کو پلٹ آتا تھا لیکن وہ ایک ضد پہ اڑ گیا تھا۔وہ ضد تھی ۔اب پاکستان میں سیاست کے نام پہ نسل درنسل غلامی کا سلسلہ نہیں چلے گا۔میثاق جمہوریت کے نام پہ باری باری باریاں لینے کا سلسلہ ختم ہوگا۔ملک کو بے دردی سے لوٹنے والے اب چین سے نہیں بیٹھیں گے۔بات چار حلقوں سے شروع ہوئی تھی ۔بیچ میں پاناما آگیا۔ایک شخص کی مستقل مزاجی نے یہ دن تو دکھایا کہ باریوں کا سلسلہ ختم ہوا۔لندن میں بیٹھ کر میثاق جمہوریت لکھنے والوں نے یہ کب سوچا ہوگا کہ درمیان میں تیسرا بھی آئے گا اور سارے خواب بکھر جائیں گے۔ملک کو لوٹنے والوں اور میگا کرپشن کر کے معیشت میں بارودی سرنگیں لگانے والوں کو منہ چھپانے کے لئے کبھی لندن کا رخ کرنا پڑتا ہے تو کبھی ایک دوسرے کو افطار پارٹیاں دینی پڑتی ہیں۔ایسی ہی افطار پارٹیوں میں نسل در نسل غلامی کی تصویریں نظر آتی ہیں۔بے نظیر کا بیٹا۔نواز شریف کی بیٹی۔شہباز شریف کا بیٹا۔ایک دیوانے کے دو خواب توتکمیل کے آخری مراحل میں ہیں اور ان شااللہ ان کی تعبیر نزدیک ہے۔یہ نسل در نسل غلامی کے سلسلے کتنے دراز ہونگے،یہ فیصلہ انہیں کرنا ہوگا جو اس پہ راضی ہوں۔ جو اس پہ راضی نہیں تھے انہوں نے انہیں 2013 ء میں ہی مسترد کردیا تھا۔