کسی جمہوری ملک کی اس سے بڑی کیا بدقسمتی ہو سکتی ہے کہ اس کے منتخب نمائندوں سے برسرِاقتدار آئی ہوئی جمہوری حکومت نہ صرف اظہارِ رائے پر پابندیاں عائد کرے، بلکہ لکھنے اور بولنے والوں پر ایک بدترین عتاب بن کر نازل ہو۔صحافیوں اور دانش وروں کو بُری طرح خوفزدہ کیا جائے، قیدوبند کی صعوبتیں اور تشدد سے ان کی زندگی اجیرن کی جائے اور ان پر روزگار کے دروازے بند کر دیئے جائیں۔ پاکستان کہلانے کو ایک ایسا جمہوری ملک ہے جس پر آئین و قانون کی حکمرانی ہے، مگر اس کی چھہتر (76) سالہ زندگی میں جنرل ایوب خان (10 سال)، جنرل یحییٰ (2 سال آٹھ ماہ)، جنرل ضیاء الحق (11 سال) اور جنرل پرویز مشرف (9 سال) سمیت چار جرنیلوں نے کل ملا کر 32 سال حکومت کی،جسے عرفِ عام میں مارشل لاء یا آمریت کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی قوم نے اپنے قیام کی ربع صدی بعد اور پہلے دو مارشل لائوں کے طویل تیرہ سالہ دَور کے بعد جب آنکھ کھولی تو یہ ملک دولخت ہو چکا تھا۔ اس کا اکثریتی حصہ مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک تھا۔ اس سانحے کی لاتعداد وجوہات بیان کی جاتی ہیں، لیکن بنیادی بات وہی ہے کہ پاکستان کی کرسیٔ صدارت پر متمکن جنرل یحییٰ خان اور مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والے مگر متحدہ پاکستان کے اقلیتی لیڈر ذوالفقار علی میں ایک ایسا گٹھ جوڑ تھا کہ دونوں مشرقی پاکستان کی بالادستی قبول کرنے سے انکاری ہو گئے، جس کی وجہ سے سانحۂ مشرقی پاکستان کا جنم ہوا۔ دسمبر 1971ء کے صدمے سے نڈھال قوم پر ذوالفقار علی بھٹو حکمران ہوا، تو اس سے نہ صرف لوگوں بلکہ بے شمار لکھنے اور بولنے والے صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں کو بہت اُمیدیں تھیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی یہ لوگ گزشتہ ڈھائی سالہ جنرل یحییٰ کا ایک ایسا دَور دیکھ چکے تھے جس میں آمرانہ حکومت کے باوجود صحافتی آزادیاں اسے پہلے کے تمام ادوار سے زیادہ تھیں۔ یحییٰ دَور میں جتنے ڈیکلریشن اخبارات کے دیئے گئے وہ گذشتہ پچیس سال کی کل تعداد سے زیادہ تھے۔ اس وقت اخبارات ہی ایک آزاد میڈیا تھے ورنہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن تو سرکاری سرپرستی میں چلتے تھے۔ 1970ء کے الیکشنوں میں پہلی دفعہ یحییٰ خان نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو ٹیلی ویژن سے براہِ راست عوام سے خطاب کا موقع دیا تھا جو پاکستان کے عوام کے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا۔ سنسر سے آزاد اخبارات جو چاہتے لکھتے اور جس کا چاہتے مضحکہ اُڑاتے۔ جلسوں اور جلوسوں کی ایسی کھلی چھٹی تھی کہ 1970ء کا شاید ہی کوئی دن ہو جس میں کوئی بڑی ریلی، جلوس یا جلسہ منعقد نہ ہوا ہو۔ ایسے تجربے کے بعد اور سانحہ مشرقی پاکستان کے دُکھ کی المناک کیفیت میں ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا تو اس پژمردہ قوم نے اس سے بے شمار اُمیدیں وابستہ کر لیں۔ لیکن یہ دَور ایسا ثابت ہوا کہ صرف پانچ سال بعد ہی بھٹو کے خلاف بھرپور تحریک شروع ہوئی جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دَور یوں تو سیاسی مخالفین کے قتل اور اغوا سے بھرا پڑا ہے، لیکن اس جمہوری دَور میں صحافت پر جو ’’عنایاتِ خسروانہ‘‘ کی گئیں وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ بھٹو کی آمریت کا کمال یہ تھا کہ اس کی زد میں دائیں اور بائیں بازو کے صحافی بیک وقت آئے۔ دائیں بازو کی صحافت کے سرخیل قریشی برادران تھے جو ماہنامہ ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ اور ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ نکالتے تھے جبکہ کراچی سے صلاح الدین صاحب کا روزنامہ ’’جسارت‘‘ اپنی صحافت کی وجہ سے بھٹو کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ ان دونوں رسائل پر نہ صرف بار بار پابندیاں لگائی گئیں بلکہ قریشی برادران اور زندگی کے ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی کو قید کر لیا گیا۔ کراچی کے ’’جسارت‘‘ پر پابندی لگائی اور اس کے مدیر صلاح الدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ جماعت ِ اسلامی کے پروفیسر غفور کا یہ فقرہ بہت مشہوا تھا، جب ان سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ ’’جسارت‘‘ کب نکلے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’’بھٹو اور جسارت ایک ساتھ نکلیں گے‘‘۔ اسی طرح دائیں بازو کے رسائل میں ’’پنجاب پنچ‘‘ بند ہوا اور اس کے ایڈیٹر مظفر قادر گرفتار اور ’’آئوٹ لک‘‘ (Outlook) پر پابندی لگی اور حسین نقی گرفتار ہوئے۔ ٹھیک پینتالیس سال بعد اپریل 2022ء سے مارچ 2023ء تک کا سال ایسا گزرا ہے جس بارے میں عالمی میڈیا پکار پکار کر یہ کہہ رہا ہے کہ یہ پاکستانی صحافت کا تاریک ترین سال تھا۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ یہ سال بھی نہ صرف ایک جمہوری حکومت کا سال ہے، بلکہ اس وقت ملک پر ایک ایسی حکومت ہے جس میں پاکستان کی تیرہ چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں۔ ان پارٹیوں میں جمہوری جدوجہد کی علمبردار وہ قوم پرست پارٹیاں بھی ہیں جن کے بڑوں نے آمریت کے ادوار میں سختیاں جھیلیں تھیں۔ فریڈم نیٹ ورک (Freedom Network) ایک عالمی ادارہ ہے جس سے منسلک پاکستان کا فریڈم نیٹ ورک انسانی آزادی اور حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی ایک تنظیم کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ اس ادارے کی 2017ء میں فرانس کی حکومت نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے بہتر کام کرنے پر ایوارڈ بھی دیا ہوا ہے۔ اس ادارے نے چند دن پہلے صحافیوں پر حملوں، دھمکیوں اور تشدد کے حوالے سے مئی 2022ء سے مارچ 2023ء تک کی اپنی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے پریس ریلیز کا عنوان ہے ’’صحافیوں کو دھمکانے اور ان پر حملہ کرنے کے واقعات میں 60 فیصد اضافہ‘‘۔ رپورٹ کے مطابق اس ایک سال میں 140 ایسے واقعات بلکہ ’’سانحات‘‘ سامنے آئے ہیں جن میں صحافیوں کو دھمکایا گیا اور ان پر حملے کئے گئے۔ جبکہ اس سے گذشتہ سال یعنی عمران خاں کی حکومت میں 2021-22ء میں ایسے واقعات کی تعداد 86 تھی۔ یعنی گذشتہ سال کی نسبت اس میں 63 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق اس حیرت کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک ہے جس نے 2021ء میں صحافیوں کے تحفظ کا قانون منظور کیا، لیکن ٹھیک ڈیڑھ سال بعد یہ قانون بھی پاکستان کے صحافیوں کو قتل، اغوائ، دھونس، دھمکی اور قید سے نہیں بچا سکا۔ رپورٹ کے مطابق صحافیوں کے خلاف 140 واقعات کا مطلب یہ ہے کہ ہر ماہ 13 صحافی تشدد، قید اور قتل کا شکار ہوئے۔ ان میں 51 کیس صحافیوں پر حملوں کے تھے، 21 کیسوں میں ان کے گھروں اور آلات وغیرہ کو نقصان پہنچایا گیا، 14 کیسوں میں انہیں آن لائن یا دفتر میں آ کر دھمکیاں دی گئیں اور ان دھمکیوں میں سے 7 صحافیوں کو قتل تک کی دھمکیاں دی گئیں۔ اس سال اخبار کی نسبت ٹیلی ویژن کے صحافی ظلم کا زیادہ شکار ہوئے۔ ارشد شریف کا قتل ایک ایسا المناک سانحہ ہے جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں کسی صحافی کے قتل پر حکومت کو اس قدر عوامی ردّعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس قدر ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کے بعد عوام کا غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔ سندھ کی حکومت اس رپورٹ کے مطابق اس معاملے میں بدترین تھی اور اس سال کے دوران، وہاں صحافیوں پر پورے پاکستان کی نسبت سب سے زیادہ حملے ہوئے۔ ناظم جوکھیو کا کیس ایک ایسا بہیمانہ قتل تھا، جس کو سیاسی اشرافیہ نے حکومت کے ساتھ مل کر انصاف کے ایوانوں سے ہی دُور کر دیا۔ یہ تاریخ خونچکاں ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ بھٹو آمریت کے پانچ سالوں کو ملا کر بھی اس قدر ظلم نہیں ہوئے تھے جس قدر ظلم شہباز آمریت کے اس ایک سال میں ہوئے۔