گزشتہ دو دھائیوں سے جب بھی بلوچستان سے باہر جانا ہو بالخصوص لاہور یا اسلام آباد دو بنیادی سوال سننے کو ملتے ہیں بلوچستان کے حالات کیسے ہیں۔ جب جواب دیا جائے اب بہتر ہیں تو دوسرا سوال ہوتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے اوراس مسئلے کا حل کیا ہے ان دو سوالوں کے جواب دیتے بیس سال گزر گئے۔ راقم کی دانست میں یہ سوال ہر بلوچستانی سے لاہور یا اسلام آباد میں پوچھا جاتا ہوگا۔ ہر زی شعور شخص اپنی اپنی علم معلومات اور سوچ کے مطابق ان سوالوں کا جواب دیتا رہا ہو گا۔ میرے خیال میں بلوچستان میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان سے نمٹنے کیلئے ایک مربوط لائحہ عمل بناکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں سیاسی قیادت اگر کرپشن اور بیڈ گورننس کی روک تھام کو یقینی بنائے تو بلوچستان کے نصف مسائل کا حل آئندہ چند سال میں نکل آئے گا۔ اور ان دو امور پر قابو پانے کیلئے کوششیں کافی عرصے سے جاری تھیں۔ دو مارچ کو حکومت بلوچستان کے ترجمان نے عوام کو نوید سنائی کے ای ٹینڈرنگ کیلئے قانون سازی کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی نے بلوچستان پروکیور منٹ اتھارٹی رولز دو ہزار چودہ میں ترامیم کی منظوری دیدی ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق الیکٹرانک پبلک پراکیور منٹ سسٹم کے ذریعے اب خریداری کا عمل ہونا تھا اس بڈنگ پراسیس میں کمپنیوں نے آن لائن حصہ لیناتھا ترمیم شدہ قواعد کے مطابق پچاس ملین سے زائد مالیت کے کام کیلئے ای بڈنگ کے نطام کو استعمال میں لایا جائیگا۔جبکہ پانچ ملین سے زائد کے سامان کی خریداری بھی اے بڈنگ کے ذریعے کرنی ہوگی ایک ملین سے زائد کی سروسز اور ایک ملین کی کنسلٹنسی کے حصول کیلئے بھی ای بڈنگ ہوگی۔ اگر اس پر منظوری کیساتھ عمل کا آغاز ہوجاتا تو کیا ہی بات تھی لیکن اب اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے حیلے بہانے ڈھونڈے جارہے ہیں۔ جس انداز میں حکومت نے اسکا کریڈٹ لینے کیلئے خبریں جاری کروائیں جتنا سوشل میڈیا پر ماحول بنایا۔ اس سب سے مختلف اقدامات اٹھائے اس منصوبے کی منظور ی کے فوری بعد سب سے پہلے اس پر جون تک عملدرآمد روکنے کیلئے بیوروکریسی کو ہدایات دی گئیں۔ کیوں کہ اگر یہ نافذالعمل ہوجاتا اور سو فیصد عمل درآمد کا کیا جاتا تو حکومت میں بیٹھے وزراء اور اراکین اسمبلی اپننے منظور نظر ٹھیکیداروں کو ٹیندرز ایوارڈ نہیں کرواسکتے تھے۔ اس صورتحال کو بھانپ کر صوبائی حکومت اور اپوزیشن نے مل کر نہ صرف اس پر عمل درآمد روک دیا بلکہ مستقبل میں اسے ناکام بنانے کیلئے سر جوڑ لئے ہیں۔ تاہم حکومت کو ابھی تک چیف سیکریٹری دفتر سے اس منصوبے پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ چیف سیکریٹری نے کسی ایسی سمری پر دستخط کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ بیڈ گورننس اور کرپشن کی روک تھام ضروری ہے جب اسکی روک تھام نہیں ہوگی نہ تو بلوچستان ترقی کریگا نہ یہاں پر نظام درست ہوگا۔ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے سوال میں اکثریت وفاق اور پنجاب کو ذمے داری ٹہراتی رہتی ہے بہت کم ہی ایسے لوگ ہونگے جو یہ سمجھتے یا کہتے ہونگے کہ ماضی میں اگر وفاق یا پنجاب بلوچستان استحصال کے ذمے دار تھے تو اب اس کی ذمے داری نہ تو وفاق پر عائد ہوتی ہے نہ پنجاب اور ناہی سندھ پر۔کیونکہ ماضی کے گلے شکووں کے نتیجے میں بلوچستان کو ساتواں این ایف سی ایوارڈ ملا جس کے بعدوسائل صوبے کومنتقل ہوئے مگر ہم نے بیڈ گور نس اور کرپشن کی نذر کردیا اربوں روپے کاغذوں میں بلوچستان میں خرچ ہوچکے ہیں۔ لیکن زمین پر بہت کم چیزیں نظر آتی ہیں۔ ایک ایسا ہی کام اب پھر ہونے جارہا ہے چند مہینوں ستر کروڑ روپے کاغزات میں خرچ ہوجائینگے ان ستر کروڑکا کام نظر آئیگا یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ ان دنوں نصیر آباد ڈویژن کے دو اہم کینالوں پٹ فیڈر اور کیرتھر کینال کی ڈی سیلٹنگ کے کام کا آغاز ہو نا ہے جسکے لئے صحبت پور سے نصیر آباد ایک سو بھتر کلومیٹر بھل صفائی کی جائیگی جبکہ اوستہ محمد سے جھل مگسی تک کیر تھرکینال میں چون کلومیٹر بھل صفائی ہونی ہے جسکے کام کا آغاز تاحال نہیں ہوا ہے ۔حکام کی طرف سے جاری پلان کے مطابق پٹ فیڈر پر بھل صفائی کا کام نے چالیس روز میں مکمل ہونا ہے ۔ راقم کی معلومات کے مطابق اسکے لئے اسوقت تیرہ ایکسیویٹرز اور تیس ٹریکٹرز کے ذریعے کام کیا جارہا ہے۔ علاقے کے ایک زمیندار کے مطابق جتنی مشینری کیساتھ کام کیا جارہا ہے اس ڈی سیلٹنگ کا کام چالیس روز کے بجائے تین ماہ میں میں بھی مکمل نہیںہوگا۔راقم کی معلومات کے مطابق اس وقت کنٹریکٹر کے پاس جو مشینری ایک پراجیکٹ پٹ فیڈ ر پر کام کررہی ہے اسکا یومیہ خرچہ اٹھارہ لاکھ روپے ہے جسے چالیس روز سے ضرب دیا جائے تو یہ رقم سات کروڑ بیس لاکھ روپے بنتی ہے لیکن اسکے لئے منظور ہونے والی رقم پچاس کروڑ ہے پٹ فیڈر کینال کے پشتے کنکریٹ کے نہیں ہیں جسکی وجہ سے چالیس روز ہوں یا تین ماہ جب کبھی بھی کام مکمل ہوگا پانی چھوڑے جانے کے بعد یہاں فنڈز درست استعمال ہوئے یا غلط اسکی نشاندہی نہیں ہوسکے گی۔ گزشتہ سال پانی نہ ملنے کی وجہ سے دو فصلوں نہیں ہوسکیں۔ اس بار بھی اگر ڈی سیلٹنگ کا کام وقت پر معیاری انداز میں مکمل نہ ہوا تو خریف کی فصل کو نقصان پہنچے گا۔ اس وقت ڈی سیلٹنگ کے منصوبے پر کام کرنے والا ٹھیکیدار ہو ایکسئین ہو محکمہ ایریگیشن کا سیکریٹری ہو یا محکمہ کا وزیر ان میں سے کسی کا تعلق پنجاب سے ہے نہ اسلام آباد سے ہے سب بلوچستان کے گرین بیلٹ کے ہی باسی ہیں۔ جو رقم خرچ ہونی ہے وہ بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہے اس رقم سے کام کرنے والے محکمے کے لوگ بھی بلوچستان سے ہیں اب یہ کام سات کروڑ میں ہو یا ستر کروڑمیں اس پر نگاہ عوام اور زمینداروں نے رکھنی ہے۔ جب تک عوام منتخب نمائندوں اور محکموں سے کارکردگی پر سوال نہیں کریگی وہ بلوچستان کی عوام کے حق پر حکمرانی کرتے رہیں گے اس لئے بلوچستان کی ترقی کیلئے کرپشن اور بیڈ گورننس کو روکنے کیلئے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور بیڈ گورننس ہے اور اسکی ذمے داری وفاق اور پنجاب کی نہیں ہماری اپنی ہے ۔