قومی اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار حکمران جماعت کے احتجاج کے باعث نا صرف اپوزیشن لیڈر کو تقریر کرنے کا موقع نہ مل سکا بلکہ سپیکر کو ایک ہی دن میں تین بار اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ مہذب معاشروں میں اختلاف رائے کا ہی احترام نہیں کیاجاتا بلکہ مثبت تنقید حکمران جماعت کو خود احتسابی کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں سیاست ذاتی مفادات اور پارٹی ایجنڈوں کی مرہون منت ہو کر رہ گئی ہے ۔رہی سہی کسر سیاسی جماعتوں میں آمرانہ رویہ نے نکال دی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو سیاسی جماعتوں کی طرف سے کرپشن کے ملزموں کے دفاع کے لئے اسمبلی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش نہ کی جاتی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت پر تنقید اور احتجاج اپوزیشن کا حق ہے مگر یہ احتجاج اور تنقید بھی جمہوری روایات اور اقدار کے استحکام کے لیے لئے ہونی چاہیے، ناکہ ذاتی مفادات کے لئے ۔اس سے مفر نہیں کہ اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت کا کردار بہرحال مختلف ہوتا ہے۔ اپوزیشن ہمیشہ ہی حکومتی افیصلوں میں کیڑے نکالتی ہے اور حکومت کا کام اپوزیشن کو تعاون پر آمادہ کرنا، حکومتی امور کی بلا تعطل روانی کو یقینی بنا نا ہوتا ہے۔ بہتر ہو گا تحریک انصاف بالخصوص وزیر اعظم حکومتی اراکین کے رویے کا نوٹس لیںاور اراکین کو اسمبلی کے رول آف بزنس کاپابند بنائیں تاکہ اسمبلی کو فعال کر کے امور حکومت کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے اور جمہوریت کا پہیہ چلتا رہے۔