چند دن پیچھے چلے جائیں تو خبروں کے انبار میں ایک خبر نے چونکا دیا بے اختیار ٹالسٹائی کے یہ الفاظ یاد آ گئے "God sees the truth but waits" سات برس پیشتر ہونے والے سانحہ بلدیہ ٹائون کے ایک عینی شاہد نے اس ظالم کو عدالت میں پہچان لیا جس نے 11ستمبر 2012ء کی شام چھ بج کر تیس منٹ پر علی انٹرپرائز کی گارمنٹس فیکٹری کے ویئرہائوس میں تیل چھڑک کر آگ لگائی تھی۔ زندہ لوگوں کو آگ لگا کر وہ دیر تک شیطانی ہنسی ہنستا رہا تھا۔ میرے اور آپ کے لیے بلدیہ ٹائون کا سانحہ گزرے ہوئے سات برس ہو چکے لیکن جن کے گھروں کے کفیل، جان و جگر کے ٹکڑے ظلم کی اس آگ میں زندہ جل کر راکھ ہوئے ، ان کے لیے یہ آگ ابھی تک دہکی ہوئی۔ آٹھ برس پیشتر علی انٹرپرائزز کے کارخانے میں لگنے والی آگ آج بھی ان کے جسم و جان کو جھلساتی اور راکھ کرتی ہے۔ اس حادثے کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(ILO) نے جو مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والا اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے، انسانی تاریخ میں ورک پیلس پر ہونے والا ظلم اور بربریت کا اب تک کا بدترین واقعہ قرار دیا ہے۔ بھارت کی نامور مصنفہ اجیت کور کی جواں سال بیٹی بھی آگ میں جل کر مر گئی تھی کرب کی یہ شدت کیا ہے۔ اجیت کور کے الفاظ میں پڑھیے۔اجیت کور اپنی آپ بیتی کے پہلے بات میں لکھتی ہیں۔’’سات برس پہلے ایک حادثہ ہوا تھا۔ جو ابھی تک نہیں گزرا۔ ہر پل میری چھاتی پر دھکتا رہتا ہے۔ آگ کے شعلوں میں گھری ہوئی ایک مشعل کی طرح جلتی ایک نہایت خوب صورت لڑکی دو منزلیں اترتی ہے، سیڑھیوں میں جلتی ہوئی ،آگ چلتی، مجھے لگتا ہے وہ آگ میرے کپڑوں کو ہی نہیں میرے جسم کے گوشت کو لگی ہوئی ہے۔ میں ان سرخ شعلوں کے الائو میں روز جلتی ہوں۔ دن کو کم رات کو زیادہ، اس آگ میں روزانہ بنانا میری تقدیر ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ڈائل گھماتی جائوں ون زیرو ون۔ اس نمبر فون کرنے سے آگ بجھانے والے آ جاتے ہیں۔ میں دل میں شاید پچاس مرتبہ یہ نمبر گھماتی ہوں۔ ون زیرو ون‘‘ اپنی آپ بیتی کا پہلا باب جس کا نام ہی ون زیرو ون ہے، میں اجیت کور نے اپنی جواں سال بیٹی کے جل کر مرنے کا اذیت ناک حادثہ بیان کیا ہے جو فرانس میں اپنے تھیسس کے لیے مقیم تھی اور ایک حادثے میں بری طرح جل کر مر گئی‘‘ اجیت کور اپنی آپ بیتی کے پہلے باب میں اس سانحے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ یہ حادثہ گزر کر بھی نہیں گزرا ۔زندگی کے سفر میں وہ پیچھے مڑ کر بھی دیکھیں تو بھی انہیں آگ کے ان شعلوں سے گزر کر ہی جانا ہو گا۔ یہ اس ماں کا دکھ ہے جس کی بیٹی آگ میں زندہ جل کر مر گئی اور اس کے احساس کو شدت سے مجھے وہ ساری مائیں اور وہ سارے باپ۔ یاد آگئے جن کے جگر کے ٹکڑے۔ 7برس پیشتر بلدیہ ٹائون کی علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری میں زندہ جلا دیئے گئے۔ 7برس کے ہو گئے مگر پھر بھی یہ سانحہ گزر کر ہی نہیں گزرا۔ جن کے گھروں کے کفیل اور جگر کے ٹکڑے اس آگ میں راکھ ہوئے وہ آج بھی ہر پل ظلم کی اس آگ میں روز جھلستے ہیں، روز مرتے ہیں۔ میرے وطن میں سانحات اور حادثوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آئے روز کوئی حادثہ ایسا ہوتا ہے جو پچھلے حادثے کی شدت اور ’’نیوز ویلیو‘‘ کو کھا جاتا ہے لیکن بلدیہ ٹائون کی گارمنٹس فیکٹری میں 260افراد کا زندہ جلائے جانا ایک ایسا سانحہ ہے جو کبھی میرے ذہن سے محو نہیں ہو سکا۔ اس کی فالو اپ خبروں میں میری دلچسپی ہمیشہ رہی۔ اگر ایک ہزار ورکروں کی اس گارمنٹس فیکٹری میں آگ حادثاتی طور پر لگتی اور 260افراد زندہ جل جاتے تو بھی یہ سانحہ ناقابل فراموش ہوتا لیکن سانحے میں ایک سیاسی پر یشر گروپ جسے ایم کیو ایم کی سیاسی جماعت کہا جاتا ہے، اس کے کارندوں کا ملوث ہونا اور 25کروڑ کا بھتہ نہ ملنے پر اس گارمنٹس فیکٹری کو بطور سزا آگ لگا دینا جس میں اس وقت کم و بیش ہزار افراد موجود تھے۔ ایک ایسا ہولناک سانحہ ہے جس نے پورے معاشرے خصوصاً کراچی شہر کے اندر انصاف، قانون، انسانیت، انسانی حقوق کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ کراچی پر برسوں اس جماعت کی صورت جبر، ظلم اور صبر کا راج رہا۔ بھتہ کلچر کے ہاتھوں تاجر اور دکاندار غیر محفوظ رہے۔ جان سے بھی جاتے رہے لیکن 11ستمبر 2012ء کو ہونے والا بلدیہ ٹائون کا سانحہ ظلم اور جبر کے اس کاروبار کا کلائمیکس تھا۔ آغاز میں تو اسے حادثاتی آگ سمجھا گیا لیکن پھر جلد ہی جے آئی ٹی کی رپورٹ نے ثابت کر دیا کہ بلدیہ ٹائون گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ بھتہ نہ دینے کا شاخسانہ ہے اور اس جرم میں ایم کیو ایم کے سیاسی کارندے شریک ہیں۔ نو افراد پر فرد جرم عائد ہوئی اس میں رئوف صدیقی جو بظاہر ایک معزز سیاسی رہنما کا روپ دھارے ہوئے ہیں ان کا نام بھی آیا۔ آگ لگانے والوں میں عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا کا نام آیا۔ اس سانحے کے بعد دونوں ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ عبدالرحمن بھولا کو انٹرپول سے گرفتار کر لیا گیا جبکہ زبیر 2016ء میں گرفتار ہوا۔ تازہ ترین ڈپلومیٹ یہ ہے کہ زبیر چریا کو آگ لگاتے ہوئے جس ورکر نے دیکھا تھا وہ سات برسوں کی روپوشی کے بعد عدالت پیش ہو کر اس ظالم کو پہچان لیتا ہے۔ اس عینی شاہد کا نام ارشد ہے۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ آگ لگانے والا ایم کیو ایم کا کارندہ بھی علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹائون کی اس بدقسمت گارمنٹس فیکٹری کا ایک ملازم ہی تھا۔ اسی لیے اس کی رسائی فیکٹری کے ویئر ہائوس تک ہوتی تھی جہاں گارمنٹس کا خام مال، کپڑا اور دیگر سامان رکھا تھا۔ عینی شاہد کے مطابق، اس روز ورکروں کو تنخواہ ملنی تھی اس لیے خلاف معمول حاضری بھی زیادہ تھی۔ شام چھ بجے زبیر چریا پانچ دیگر مشکوک افراد کے ساتھ فیکٹری آتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک بیگ ہے عینی شاید اس فیکٹری میں فنشنگ انچارج تھا۔ اس نے دیکھا کہ زبیر چریا نے کالے بیگ سے ایک بوتل نکال کر سامان پر چھڑکی اور پھر ماچس جلا کر اس سامان پر پھینک دی۔ آگ کے قاتل شعلے بلند ہوئے اور وہ بھڑکتی آگ کو دیکھ کر شیطانی انداز میں مسکراتا رہا۔ (جاری ہے)