25 اکتوبر 2020ء کو اورنج ٹرین کا افتتاح کر دیا گیا۔ افتتاح کے اگلے دن ہی اسکا سفر کچھ اتنا خوشگوار بھی نہیں رہا۔ کئی جگہوں پر ابھی سول ورک نامکمل تھا۔ چوبرجی سٹیشن سے لیکر تقریبا ہر سٹیشن پر مٹی، گرد جگہ جگہ دکھائی دے رہی تھیں۔ ٹرین کے اندراے سی بالکل کام نہیں کر رہا تھا۔ عملہ کا رویہ دوستانہ ہونے کی بجائے ترش تھا۔ ٹرین کے اندر حبس کا سا ماحول تھا۔ یوں اورنج ٹرین کے آغاز کی بابت موجودہ صوبائی حکومت کی "دلچسپی" پوری طرح عیاں تھی!کچھ ایسی طرح کی صورتحال ملتان – لاہورموٹروے کے کھولنے کی بابت بھی نظرآرہی ہے۔ چونکہ پچھلی حکومت کے دورمیں اسکی تعمیرہوئی تھی۔ لہذا بادلِ نخواستہ اسکو کھولنا پڑامگر خدا جھوٹ نہ بلوائے، عرصہ ڈیڑھ سال سے اسی موٹروے کے راستے میں مکمل شہری سہولیات کا فقدان تاحال جوں کا توں ہے۔ ہمیں من حیث القوم ہرگز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اورنج ٹرین کا منصوبہ ہرگز ہرگز کسی سیاسی رہنما کی ذاتی جیب سے نہیں بنایا گیا۔ اس پر قومی دولت لگی ہے اور یہ ہماری قوم کا منصوبہ ہے۔ لہذا سیاسی جماعتوں کو ذہنی پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔چنگ چی، ویگن اور رکشوں کی سواری کو خیر باد کہتے ہوئے اپنی ذاتی کمائی اور قیمتی وقت کو بچائے ہوئے اورنج ٹرین سے سفر کرنیکو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔( ناجیہ نورین میتلا، ایڈوکیٹ۔ لاہور)