وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وہ الفاظ کہہ دیے جن کی پوری قوم منتظر تھی۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور کسی طرح کی بھارتی مہم جوئی پر جنگ کے لئے تیار ہونے کا اعلان کیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ خود کشمیری عوام کے سفیر بن کر پوری دنیا میں جائیں گے اور عالمی برادری کو بی جے پی کی نسل پرستانہ نفرت پر مبنی پالیسیوں سے آگاہ کریں گے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں متعدد بار عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو مخاطب کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا نے بھارتی مظالم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جو ادارے جنگ رکوانے کے لئے قائم کئے گئے تھے وہ کشمیر کی صورت حال پر خاموش ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پر کہا کہ کشمیر کی حالت خود اقوام متحدہ کے لئے آزمائش ہے کہ جس معاملے پر اس نے گیارہ عدد قرار دادیں منظور کر رکھی ہیں ان قرار دادوں کی خلاف ورزیوں پر وہ نریندر مودی کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے قبل آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار فاروق حیدر نے پاکستان اور کشمیر کے لوگوں کے مابین ناقابل شکست رشتوں کی بات کی۔ کشمیری نوجوانوں اور بچیوں پر ظلم سے متعلق آگاہ کیا اور اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھوکے اور زخمی کشمیریوں کے لئے خوراک و ادویات پہنچانے کا جلد انتظام کرے۔ بلا شبہ دنیا کے دو بڑے تنازعات کشمیر اور فلسطین اس بنا پر حل نہیں ہو رہے کہ دونوں جگہ مسلمان مظلوم ہیں اور غاصب قوتیں عالمی مالیاتی اور معاشی نظام کی لاڈلی ہیں۔ وہ عالمی طاقتیں جو دنیا کی تقدیر لکھنے کی دعویدار ہیں ان کے معاشی رشتوں نے مظلوم اقوام کے تحفظ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ عمومی طور پر اقوام متحدہ ہو‘ یورپی یونین ہو‘ آسیان ہو یا جی 8ممالک ہوں سب ہمیشہ اس وقت کسی معاملے پر توجہ دیتے ہیں جب خود ان کے پیروں تلے آگ بچھی ہو۔ افغانستان کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ امریکہ چار عشروں پر محیط اپنی طویل مداخلت کا نتیجہ دیکھ چکا۔ اسے معلوم ہو گیا کہ وہ مزید چند برس افغانستان میں الجھا رہا تو اس کی معاشی تباہی یقینی ہے۔ بات چونکہ اس کے اپنے مفادات کی تھی اس لئے پاکستان سے کشیدگی ختم کر کے اس سے تعاون حاصل کرنے کے حربے استعمال کئے گئے۔ خطے میں بھارت کی پالیسی کو اس پیمانے پر تولیں تو بھارت نے پاکستان کے ہر ہمسائے کے ساتھ معاشی مفادات کے رشتے استوار کئے۔ ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ کی تعمیر میں معاونت کی۔ افغانستان کو چند ترقیاتی منصوبوں کا لالچ دیا۔ چین کو بڑی منڈی کے فوائد بتائے۔ خطے کے دیگر ممالک سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ نیپال ‘ مالدیپ اور بھوٹان بھی ایسے ہی مفادات میں گھرے ہوئے ہیں تاہم ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دینے والے عرب ممالک کو تنازع کشمیر کے حوالے سے غیر جانبدار یا خاموش کر کے بھارت نے سب سے بڑی کامیابی حاصل کی۔امریکہ ‘ برطانیہ‘ فرانس اور روس کا تو ذکر ہی کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی شکل میں عالمی برادری نے انسانیت ‘ انسانی حقوق اور مفادات کے جن اصولوں پر اتفاق کیا تھا وہ سب معاشی لالچ کی نذر ہو گئے ہیں اور اب جو ملک معاشی طور پر طاقتور ہے اسے دنیا کے دوسرے علاقوں پر قبضے کرنے کی اجازت ہے اور لوگوں کو ان کی مرضی کے بغیر جبراً غلام بنا کر رکھ سکتا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ بہتر برسوں کے دوران پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر پاکستان اور اہل کشمیر کے درمیان تعلق کمزور نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار فاروق حیدر نے بجا کہا کہ کشمیری پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان جانتا ہے کہ بھارت نے ماحولیات‘ غربت اور بے روزگاری جیسے مشترکہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے تصادم کا راستہ کیوں اختیار کیا ہے۔ مغربی دنیا جرمنی کے حکمران ہٹلر کو نفرت اور انسانیت کش فلاسفی کی وجہ سے مجرم سمجھتی ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ ہٹلر کے بعد جو لوگ اپنے انتہا پسند نظریات کے ذریعے انسانوں کے لئے خطرہ بن رہے ہیں مہذب دنیا ان کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے رکن رہے ہیں‘ وہ ان خیالات کے حامی ہیں کہ ہندوستان میں کسی اقلیتی برادری کو صرف اس صورت رہنے کا حق ہے اگر وہ ہندو دھرم اپنا لے۔ بھارت نے پون صدی سے کشمیریوں کو ان کے حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ ایک لاکھ کشمیری آزادی کی جدوجہد میں شہید ہو چکے ہیں‘ بائیس ہزار خواتین بیوہ ہوئیں۔ لاکھوں افراد زخمی اورمعذور ہوئے۔ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے قریب ایک فرضی فلیگ آپریشن کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے بعض علاقوں میں پاکستانی پرچم لہرا کر اس علاقے کو آزاد کشمیر ظاہر کر کے ایک پروپیگنڈہ فلم بنانے کا منصوبہ روبہ عمل ہے جس سے جنگی جنون میں مبتلا بی جے پی اپنے اذیت پسند حامیوں کو تاثر دے سکے کہ بھارتی افواج نے پاکستانی علاقے میں گھس کر کارروائی کی ہے۔ایسی فرضی کارروائی کا مطلب آزادی کشمیر پر کسی بڑے حملے کا بہانہ گھڑنا ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایسے خدشات کے پیش نظر ہی بھارت کی انتہا پسند قیادت کو انتباہ کیا ہے کہ ہم مفادات کی لڑائی نہیں بلکہ انسانیت دشمن نظریات کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔ عالمی برادری کشمیریوں پر ظلم پر خاموش رہی تو اس سے ایک بھیانک جنگ چھڑ سکتی ہے جس کی تمام ذمہ داری عالمی اداروں اور عالمی برادری پر عائد ہو گی۔