جہاں’’دشمن‘‘ کی تعریف بھی بنتی ہو، کرنی چاہئے۔ عمران خان تو ہم سب کے وزیر اعظم ہیں، سیاسی اختلافات اور نظریات اپنی جگہ، مگر قومی معاملات پر تو یگانگت دکھائی دینی چاہئے۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں اپنے سیاسی کیرئیر کی بہترین تقریر کی، برجستہ اور ٹو دی پوائنٹ، جبکہ بعض کو خدشہ تھا کہ ان کا سارا خطاب مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر محیط ہوگا، لیکن انہوں نے کشمیر ایشو کو چوتھے نمبر پر رکھا، کئی ناقدین کہہ رہے ہیں کہ ان کی تقریر کے پہلے تین نکات بھی اہم تھے اور انہیں دنیا کے سامنے پیش کرنا لازمی تھا، لیکن سیاسی مخالفین نے پہلا اعتراض ہی یہ اٹھایا ہے کہ عمران خان نے صرف کشمیر کو فوکس کیوں نہیں کیا،؟ میں نے وزیر اعظم عمران خان کا خطاب ایک میڈیا ہاؤس میں سنا، میرے ساتھ دو نوجوان اینکرز بھی بیٹھے تھے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، دونوں نے عمران خان کے ہر جملے پر تالیاں بجائیں اور کمنٹس دیے۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور دونوں سے مخاطب ہو کر پوچھا،آپ پی ٹی آئی کے کارکن ہیں؟ لڑکا تو خاموش رہا لڑکی نے جواب دیا ، ہمارا وزیر اعظم ہمارے دل کی باتیں کر رہا ہے۔ لیکن میںآپ کو یہ بھی بتاتی چلوں کہ اس تقریر سے متاثر ہو کر میںآئندہ الیکشن میں عمران خان کو ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کر سکتی، بہت سارے لوگوں کو اس خطاب کے بعد میں نے عمران خان کا چیرمین ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو سے موازنہ کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ باپ بیٹی دونوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر کشمیر کا مقدمہ پیش کیا تھا۔ میرے خیال میں بھٹوز اور خان کا موازنہ کرنا ہی حماقت ہے۔ اس وقت کشمیر جس جہنم میں جھلسایا جا رہا ہے اس کی نظیر ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ البتہ پیپلز پارٹی کی راہنما شیری رحمان نے وزیر اعظم کے خطاب پر جو نکتہ اعتراض اٹھایا ہے اس کی میں کلی طور پر حمایت کرتا ہوں۔ شیری رحمان کا فرمان ہے کہ وزیر اعظم کو جنرل اسمبلی میں منی لانڈرنگ کا تذکرہ نہیں کرنا چاہئیے تھا کیونکہ ان کی اپنی پارٹی کے بھی توآف شور اکاؤنٹس سامنے آ چکے ہیں۔ میرے خیال میں عمران خان نے اگر یہ ایشو اٹھانا ہی تھا تو انہیں تھوڑی سی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دینا چاہئے تھا کہ پاکستان سے بعض اپوزیشن اور بعض حکومتی ارکان پارلیمنٹ اور کئی دوسرے اشرافیہ عوام کی لوٹی ہوئی اربوں ڈالرز کی رقم امیر ملکوں کے بنکوں میں منتقل کر دیتے ہیں، وزیر اعظم نے صرف زرداری اور نواز شریف کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دونوں واقعی چور ہیں تو خاص طور پر ان لوگوں کی تلاشی تو ہر قیمت پر ہونی چاہئے جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو چھوڑ کر اب پھر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ عمران خان کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران میں نے یہ بھی سوچا کہ اگرآج ملک کا وزیر اعظم بلاول بھٹو زرداری ہوتا تو اس کی اس اعلیٰ ترین عالمی فورم پر پرفارمنس کیسی ہوتی؟ دماغ کو دل نے جواب دیا کہ شاید عمران خان سے بھی بہتر، مگر عمران خان کے خطاب کے بعد بلاول بھٹو کا جو رد عمل سامنے آیا وہ سائینٹیفک نہیں تھا، بلاول کہتے ہیں،،،،، تصور تو یہ کیا جا رہا تھا کہ عمران خان کی تقریر کے بعد انقلاب آ جائے گا، مگر وہ تو کشمیر کا مقدمہ بھی جنرل اسمبلی میں صحیح طور پر پیش کرنے میں ناکام رہے۔ عمران خان نے اس عالمی فورم پر کوئی ایسا بیانیہ نہیں دیا جسے دنیا تسلیم کر لیتی،،،،، جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ عمران خان کی تقریر کے دوران، میں ان کا بلاول بھٹو سے موازنہ کر رہا تھا۔ بلاول کا رد عمل پڑھ کر میں نے سوچا کہ اگر جنرل اسمبلی میں بلاول بھٹو بھی بحثیت وزیر اعظم خطاب کر رہے ہوتے تو ان کا اپنا بیانیہ بھی ہو بہو یہی ہوتا۔ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے تھوڑی ہی دیر پہلے امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان, ایلس ویلز نے اپنا ایک وڈیو بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں لگائی گئی پابندیاں فوراً ختم کرے۔ میرے خیال میں پاکستان نے پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے خلاف جو عالمگیر مہم چلائی اس کی کامیابی اس امریکی بیان سے زیادہ اور کچھ نہیں ہو سکتی تھی۔ پاکستان اپنی سفارتی جنگ جیت چکا ہے اور اب عمران خان اور ان کی حکومت کو ملکی مسائل کی جانب بھر پور طریقے سے توجہ دینا ہوگی، جہاں عوام بھوک، ننگ، افلاس اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔ یہ بائیس کروڑ عوام بھی طاقتوروں اور حکمران طبقات کے قبضے میں ہیں، انہیں بھی جنم جنم کی اس قید سے رہائی دلانا بہت ضروری ہے۔ شاید ان کی آزادی کی کنجی بھی قدرت نے عمران خان کے ہاتھوں میں ہی تھمانا لکھا ہو۔ انسان دوست وزیر اعظم کو ابھی اور بہت امتحانوں سے بھی گزرنا ہے۔ انہیں میں اس بات پر بھی مبارک دینا چاہوں گا کہ ان کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران پانچ بار تالیوں کی گونج ساری دنیا نے سنی، وہ پانچ کیا ایسے لمحات تھے اور ان لمحات میں وزیر اعظم نے کیا مکالمے بولے تھے کہ عالمی برادری کے چوہدری انہیں داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ قارئین کرام نے سنے بھی ہوں گے اور پڑھ بھی لئے ہوں گے، اس موضوع کو ختم کرتے کرتے میں عمران خان کے خطاب پر خاتون امریکی صحافی سنتھیا ڈی رچی کے کمنٹس آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں،،،،،،، اگر کوئی چیز پاکستانیوں کو متحد کر سکتی ہے تو وہ ہے نریندر مودی کی طرف سے کشمیر میں اٹھائے گئے اقدامات،،،، اکثر بحران ہی انسانوں میں اتحاد کا باعث بنتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ اور اب ایک چٹکلہ پرانے لاہوری کلچر کا۔۔۔۔ وسیم میرا ہائی اسکول میں کلاس فیلو تھا،،اسے دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ہنر آتا تھا، وہ اپنے’’ معاملات‘‘ سے دوسروں کو آلودہ کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا تھا، میں اس کی حرکتوں سے بہت محظوظ ہوتا یہاں تک کہ گھر میں اس کی کوئی بات یاد آجاتی تو بے ساختہ ہنس پڑتا۔ پھر مجھے اس کی سنگت کی عادت سی پڑ گئی، وسیم کی والدہ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ دماغی مریضہ ہیں، اس کی دو بہنیں اور دو بھائی بھی تھے، بہنیں بڑی اور بھائی اس سے چھوٹے،، ایک کو نشے کی لت پڑ گئی تھی۔ ایک دن میں وسیم کے گھر گیا ،ہم دونوں کا پروگرام تھا داتا صاحب کے میلے میں جانے کا ، میں وسیم کے گھر کے دروازے پر اس کے اکھڑ مزاج اور چڑ چڑے باپ کے روبرو تھا، اس کے باپ نے پوچھا،، کس سے ملنا ہے۔؟ میں نے کہا۔۔وسیم سے، اس کا کلاس فیلو ہوں، اس کا باپ خاموش ہوگیا، وہ نہ مجھے واپس جانے کو کہہ رہا تھا اور نہ ہی وسیم کو بلوا رہا تھا۔ اسی دوران میں نے مین گیٹ سے دور گھر کے اندرونی دروازے سے دو برقعہ پوش لڑکیوں کو برآمد ہوتے دیکھا، اور سوچا ، ضرور وسیم کی باجیاں ہوں گی، وہ اپنے باپ کے قریب پہنچ کر رک گئیں۔ باپ نے سخت لہجے میں دریافت کیا،، کہاں جا رہی ہو؟ ،، جواب ملا ،، ابا جی میلہ دیکھنے،، اب بزرگ محترم نے زور سے چلاتے ہوئے وسیم کو آواز دی۔،،،،اوئے وسیم ،،،، بیٹا باپ کے پکارتے ہی باہر والے دروازے پر آگیا،،،،، اوئے ایناں نوں اندر لے جا ، تے گھر وچ ای میلہ وکھا دے،،،،، لڑکیاں باپ کے مکالمے سن کر سہم گئیں اور واپس گھر کے اندربھاگ گئیں۔میں سوچنے لگا کہ وسیم کی والدہ کا تو سنا تھا ، اس کا تو باپ بھی پاگل ہے،،،، میں اوروسیم شام ڈھلے جب میلہ دیکھنے بھاٹی چوک پہنچے تو وہ دونوں باجیاں وہاں ٹوپی والے برقعے پہنے ہم سے پہلے ہی گھوم رہی تھیں۔