عمران خان صاحب جب سے وزیرِ اعظم بنے ہیں ،اِن کی تقاریر،انٹرویوز اور ٹیلی ویژن پر براہِ راست عوام کے سوالات کے جوابات ہی زیرِ بحث رہتے ہیںکہ وزیرِ اعظم کے چاہنے والے تقریروں اور انٹرویوز کو سراہتے نہیں تھکتے ۔ ہم یہاں دوہزاراَٹھارہ کے بعد لمحہ ٔ موجود تک وزیرِ اعظم کے اُن انٹرویوز کے حوالے سے بات کرتے ہیں ،جو میڈیا کے اینکرز کو یہ مختلف اوقات میں دیتے رہے ہیں۔اِن میں سے زیادہ تر سوالات موجودہ سماجی و سیاسی صورتِ حال سے مطابقت تک نہیں رکھتے تھے اور ایسا بھی نہیں تھا کہ اِن میں سے چند ایک سوالات عوام کی ضرورتوں،اُمنگوں اور اُمیدوں سے متعلق ہوتے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک انٹرویو بھی ایسا نہیں تھا،جس میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انھیں لحظہ بھر کے لیے سوچناپڑا ہو۔آخر ایسا کیوں؟اِ س کی دوتین وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو اپنی پسند کے اینکرز کو انٹرویو دینا قرارپاتی ہے اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بعض اینکرز کا مطالعہ بہت سطحی ہوتا ہے ۔البتہ وزیرِ اعظم کے جو انٹرویو ز غیر ملکی میڈیا کے نمائندگان نے وقتاً فوقتاًلیے ،اُن انٹرویوز کی گونج ہمارے ہاں سنی جاتی رہی ہے ۔ حتیٰ کہ اِن انٹرویوز کے مندرجات پر ہمارے چینلز پر پورے کے پورے پروگرام کیے جاتے رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے علاوہ بھی جن اہم سیاسی شخصیات کے انٹرویوز ،ہمارے ہاں مباحث کو جنم دینے کا وسیلہ بنے،وہ بھی غیر ملکی میڈیا پر نشر ہوئے ۔البتہ چند ایک انٹرویوز ایسے بھی تھے،جن کے لینے والے پاکستانی صحافی تھے۔ 92نیوز چینل پر اینکر معید پیرزادہ کا ،وزیرِ اعظم عمران خان سے کیا گیا انٹرویو ملکی و غیر ملکی میڈیا پر زیرِ بحث رہا تھا ،جس میں وزیرِ اعظم نے موٹروے زیادتی کیس کے تناظر میں کہا تھا کہ جنسی زیادتی کرنے والوں کو نامرد بنانے کا قانون لایا جائے گا۔ مَیں چونکہ ایک عام صحافی ہوں۔ تیسرے اور چوتھے درجے سے بھی نیچے کا۔مجھے کبھی ایسا موقع نہیں ملے گا کہ وزیرِ اعظم کا انٹرویو کرسکوں۔اگر آج کل ایسا موقع مل جائے تو بتائوں گا کہ انٹرو یو کے سوالات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ مَیں وزیرِ اعظم صاحب سے سوال کروں گا کہ آپ نے دوہزاراَٹھارہ کے انتخابات کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں پاکستانی بچوں کے دماغ کے سکینز دکھاکر بتایا تھا کہ ہمارے بچے غذائیت کی کمی کا شکار رہ کر ذہنی نشوونما میںپیچھے رہ جاتے ہیں۔ آج آپ اپنی حکومت کے تین سال بعد بچوں کے دماغ کے سکینز دکھانا چاہئیںگے؟ مَیں وزیرِ اعظم سے سوال کروں گا کہ آپ نے انتخابات کے انعقاد سے قبل ایک سو دِنوں کا سہانا خواب دکھایا تھا۔آپ کو معلوم ہے کہ وہ سہانا خواب کرچیاں بن کر ہماری آنکھوں کی بینائی کو متاثر کرچکا ہے؟مَیں وزیرِ اعظم سے سوال کروں گا کہ آپ کو غریبوں کا بہت احساس ہے ،آپ کا ویژن ،اُن کی فلاح پر مرکوز ہے۔ آپ نے سفید پوش طبقے کو یکسر فراموش کردیا ہے۔اس وقت سفید پوش طبقہ جس مالی پریشانی میں گھِرا ہوا ہے ،آپ اُن کی پریشانیوں سے آگاہ ہیں؟ اگر آگاہ ہیں تو پریشانیوں سے نکالنے کے لیے کیا منصوبہ پیش کر چکے ہیں؟مَیں وزیرِ اعظم صاحب سے سوال کروں گا کہ آپ کی حکومت کے تعلیم کے وزراء اور تعلیمی ماہرین کو معلوم ہے کہ پاکستان کو درپیش تعلیم کے بحران کی نوعیت کیا ہے؟نیزیکساں نصابِ تعلیم جو محض بچیوں اور عورتوں کے حجاب کے گردگھومتا ہے،اس بحران کا حل ہے؟ مَیں وزیرِ اعظم صاحب سے اس سوال کا جواب جاننا چاہوں گا کہ شریف برادران اور زرداری اینڈ کمپنی کا احتساب زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا عوام کو خوشحالی اور باوقار زندگی دینا؟نیز آپ کا عوام کی خدمت کا تصور،پہلے حکمرانوں سے کتنا مختلف اور حقیقی ہے؟ مَیں وزیرِ اعظم صاحب سے پوچھنا چاہوں گا کہ ایک عام شہری کے نزدیک آپ کا تاثر وزیرِ اعظم سے زیادہ ایک ایسے سماجی کارکن کے طورپر اُبھرا ہے ،جو گلے محلے کے لوگوں کو وقتی طورپر ریلیف دینے کی بابت تگ ودَو کرتارہتا ہے۔ مَیں وزیرِ اعظم سے سوال کروں گا کہ اگلے الیکشن میں آپ کن نعروں اور تقریروں کی بدولت سیاسی میدان میں اُتریں گے کہ آپ نے جو کہنا تھا،کہہ چکے،جو تقریریں کرنی تھیں،کر لیں اور عوام کے جن سوالات کے جوابات دینا تھے،دے لیے۔اگر مجھے انٹرویو کرنے کا موقع ملا تو ایک سوال یہ بھی کروں گا کہ آپ نے پاکستانی نوجوانوں کی اُمیدوں کو توڑنے کی قیمت اتنی کم کیوں لگائی۔ ٭٭٭٭٭