وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے اس بار ایک طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی۔گھنٹے دو کی ملاقات میںان کے ساتھ روٹی بھی کھائی۔۔ ۔ اور یہ روٹی قطعی وزرائے اعلیٰ کے پر تعیش کھانوں کی طرح نہ تھی نہ سندھی بریانی،یہ سری پائے ،نہاری، نہ تین چار قسم کی دال سبزی اور نہ ہی میٹھے میوہ جات۔ مگر ہاں، اس دوران جو پر تکلف آف دی ریکارڈ گفتگو ہوئی،وہ یقیناروح کی غذا کی تھی۔اب اس آف دی ریکارڈ پہ بھی سن لیں کہ ہمارے ایک بہت باخبر رپورٹر کی یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ ایک سینئر وفاقی وزیرسے قومی مسائل پر اہم آف دی ریکارڈ گفتگو ہوئی۔بعد میں یہ آف دی ریکارڈ گفتگو لفظ بہ لفظ اس فخر و انبساط سے دی کہ انہوں نے بڑا اسکوپ مارا ہے۔ ایک زمانہ تھا اور میں یہ بات70ء کی دہائی کی کررہا ہوں،کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما ؤں کے دروازے شام ہوتے ہی کھل جاتے تھے، جس میں جوق در جوق اُن کے حامی ،سیاسی کارکن اور دوست احباب تو آتے ہی تھے۔لیکن صحافیوں کی آمد بھی باقاعدگی سے ہوتی۔بے تکلفانہ گفتگو میں جہاں اس سیاسی رہنما کے ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاتا ،وہیں خبر بھی مل جاتی۔ہاں ،یہ ضرور تھا کہ اُس سیاسی رہنما سے اس بات کی اجازت لے لی جاتی تھی ۔پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو سے ایک آدھ ملاقات یاد ہے اور وہ یوں کہ ہم اُس وقت کوئی قابلِ ذکر صحافی نہ تھے ۔ لندن میں مقیم سابقہ ہائی کمشنر واجد شمس الحسن اور صحافتی استاد محمود شام کے ہمراہ ایک کونے میں جگہ مل جاتی ۔ جیسے جیسے شام ڈھلتی جاتی ، بھٹو صاحب کی سیاسی ذہانت کی گرہ کھلنی شروع ہوجاتی ۔کسی سوال پر تاریخ کے اتنے حوالے دیتے کہ گویا جیسے علم کا دریابہہ رہا ہو۔اس دوران اس بات کا بھی خیال رہتا کہ کس کے گلاس میں برف کم ہے اور کس کا سگار بجھ گیا ہے۔اسی طرح ولی خان ،میر غوث بخش بزنجو،سردار شیرباز خان مزاری،پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی کیساتھ بھی اُن کی بیٹھکوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ہاں،جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپریل 1986ء میں وطن واپسی ہوئی تو ایک حد تک ہمیں صحافتی اعتبار حاصل ہوچکا تھا۔ 70کلفٹن اور بعد میں بلاول ہاؤس میں باقاعدگی سے ملاقاتیں ہوتیں ۔ اس زمانے میں نہ گارڈز اور سیکورٹی کے بکھیڑے ہوتے تھے،اور نہ ہی سکریٹریوں ،بلکہ مصاحبین کے جم گھٹے۔ایک ہی ڈرائنگ روم میں بے تکلفانہ ماحول میں گھنٹوں سیاسی مسائل پر گفتگو ہوتی ۔ بے نظیر بھٹو،محاورے کی زبان میں پولیٹیکل انیمیل تھیں۔ یعنی جن سے مل کر سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے انفارمیشن بھی ملتی اور انجوائیمنٹ بھی۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے یہ تو نہیں کہوں گا کہ روزانہ اُن کی رہائش گاہ پہنچ جاتے کہ ایک تو فوج کی سربراہی کے سبب ایک خاص پروٹوکول ہوتا تھا ،مگر یہ ضرور ہے کہ بڑے اہتمام سے مہینے میں ایک دو بار ضرور سینئر صحافیوں کے گروپ سے ملاقات کے لئے بلاتے ۔اچھی طرح یاد ہے کہ جب آگرہ سمٹ سے پہلے اور بعد میں باقاعدہ کشمیر کے حل کے فارمولے کو تفصیل سے ڈسکس کیا کرتے تھے ۔ 2006ء میں جب اکبر خاں بگٹی کا قتل کیا گیا تو ہمارے سامنے سینہ ٹھوک کر اعتراف کیا کہ اُس نے ہمارے جوانوں کو مارا،میں اسے کس طرح چھوڑتا۔ اس بات کا بھی اعزاز حاصل رہا کہ تقریباً تمام ہی سربراہان ِ مملکت کے ساتھ غیر ملکی دورے کئے۔ یہ اعتراف کرنے میں بھی حرج نہیں کہ میاں نواز شریف سے اس طرح کی ملاقاتیں کبھی نہیں رہیں کہ ایک تو سبب اُن کا قیام ِ لاہور تھا۔ پھر میاں صاحب کبھی کھلے ڈُلے سیاست دان بھی نہیں رہے۔شاید ایک دو ہی صحافی ہوں جنہیں اُن کا قُرب حاصل رہا ہو۔تحریک انصاف کی سربراہ ،موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں کچھ کہنے سے گُریز کروں گاکہ یہ شکایت اور شکوے کے زمرے میں آئے گا۔یہ لیجئے،بات شروع ہوئی تھی وزیر اعلیٰ سندھ سے منگل کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ملاقات سے۔ شاہ صاحب شرٹ اور پتلون میں بڑے relaxedنظر آئے ۔ چھوٹتے ہی پہلا سوال ہوا: ’’پکڑائی کا خطرہ ٹل گیا ہے؟‘‘۔ جس پر انہوں نے انتہائی تفصیل سے اُن کیسز کے بارے میں بتایا کہ جو ان پر نیب نے دائر کئے ہیں اور جس کے لئے اُن کی طلبی ہوتی رہتی ہے۔شاہ صاحب سے یہ پہلے ہی پوچھ لیا گیا تھا کہ کتنی باتیں لکھنے اور سنانے کی ہیں اور کیا کچھ اسکرین پہ کہناہے۔یقینا دو موضوع سرِ فہرست تھے۔اُن میں ایک تو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا مارچ تھا اور دوسرے وفاق میں بیٹھی تحریک انصاف کی حکومت اور اُن کے وزیر اعظم سے تعلقات ۔شاہ صاحب نے اپنی روایتی شائستگی کو برقرار رکھتے ہوئے شکایت کی کہ ،پورا سال ہونے کو آرہا ہے ،وزیر اعظم عمران خان سے ملاقا ت کو ۔ ۔ ۔ ورنہ آئینی ، سیاسی بلکہ اخلا قی طور پر بھی وزیر اعظم کو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے باقاعدگی سے ملاقات کرنی چاہئے۔چاہے وہ مخالف ہی کیوں نہ ہو۔اُن کا کہنا تھا کہ گرین لائن بس کا مسئلہ ہو، یا پھر کراچی سرکلر ریلوے ۔ یا پھر سی سی آئی اور این ایف سی کی میٹنگ ، انہوں نے انکشاف کیا کہ پچھلے ایک سال میں سی سی آئی یعنی کونسل آف کامن انٹرسٹ کی ایک نشست بھی نہیں ہوئی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے سابق صدر آصف علی زرداری ،ان کی بہنیں محترمہ فریال تالپور اور محترمہ عذرا پیچوکی حراستگی پر گفتگو سے گُریز ہی کیا۔بلکہ جب ہم میں سے ایک نے ازراہِ مذاق شاہ صاحب سے کہا کہ پنجاب کی پارٹی کے قائد کو ریلیف مل رہا ہے ۔ ۔ ۔ سندھ کے قائد کو بھی ریلیف ملے گا؟ اس سوال کو انہوں نے ہنسی میں اڑاتے ہوئے کہا کہ ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ ہمارے چیئر مین کو علاج کی غرض سے جو کراچی لانے کی درخواست کی گئی تھی ،اُسے مسترد کردیا گیا ہے۔ دوستواور عزیزو،دو گھنٹے کی ملاقات میں یوں تو اور بھی کہی ،ان کہی گفتگو ہوئی ۔ اور جسے صحافتی اخلاقیات کے تقاضوں کے پیش نظر آف دی ریکارڈ ہی رکھنا چاہئے۔ سیاستدانوں سے خاص طور پر حکمرانوں سے صحافیوں اور دانشوروں کی ملاقاتیں ہمارے سیاسی کلچر کا ایک حصہ ہوتی تھیں۔ مگر افسوس کہ جہاں دیگر صحافتی اور سیاسی اخلاقیات رخصت ہوئیں ،وہاں یہ سلسلہ بھی تمام ہوا ۔اور جس کا دونوں کو نقصان ہوا۔