وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے گزشتہ روز راجن پور کے نواحی علاقے روجھان میں گندم کٹائی کا افتتاح کیا اس موقع پر انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں سے ایک ایک دانہ خرید کریں گے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لندن میں بیٹھ کر مزے لوٹنے والوں کی زبان سے دکھی انسانیت کی بات نہیں جچتی۔ وزیراعلیٰ نے راجن پور ہسپتال کے دورے کے دوران راجن پور ، فاضل پور ، کوٹ مٹھن ، داجل اور روجھان کے ہسپتالوں کو اپ گریڈ اور جام پور ہسپتال میں گائنی وارڈ بنانے کا اعلان کیا ۔ ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے کی منظوری احسن قدم ہے مگر اس علاقے کے بہت سے دیگر مسائل بھی وزیراعلیٰ کی توجہ کے متقاضی ہیں ۔ یہ کالم لکھ رہا ہوں تو ابھی ابھی یہ خبر آئی ہے کہ ملتان کی قاسم پور کالونی میں حکومت کی طرف سے امدادی رقم کی تقسیم کے دوران بھگدڑ سے ایک عورت نذیراں بی بی موقع پر فوت جبکہ 20 خواتین زخمی ہوئیں ، جنہیں نشتر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ اس واقعے سے سرائیکی وسیب کی غربت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ اپنے موضوع کے حوالے سے عرص کرونگا کہ راجن پور وہ بے نصیب علاقہ ہے ، جس کا حوالہ عمران خان اپنی ہر تقریر میں دیتے رہے اور بتاتے رہے کہ اس علاقے کے غریب لوگ خط غربت سے کہیں نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور فی کس آمدنی لاہور کے مقابلے میں کئی سو فیصد کم ہے ۔ نواز شریف دور میں راجن پور کے ساتھ ایک زیادتی یہ ہوئی کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی جو راجن پور کے لئے آئی اسے اسلام آباد بھیج دیا گیا ۔ سوئی گیس جو کہ راجن پور کے قریبی علاقے سوئی سے حاصل ہوئی ، وہ ہزاروں میل دور ، لاہور اسلام آباد اور پشاور تک تو چلی گئی مگر راجن پور محروم رہا۔ تعلیم ، صحت اور روزگار کے مواقع اس علاقے میں کم ہیں ، علاقے کی ترقی کیلئے ایک ماسٹر پلان کی ضرورت ہے ۔ پورے ڈی جی خان اور ملتان ڈویژن کی اہمیت اس بناء پر ہے کہ بقول فخر الدین بلّے قائد اعظم اسی علاقے میں دارالحکومت بنانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اس علاقے کو ترقی دی جائے اور 2019-20ء کے بجٹ میں سول سیکرٹریٹ کیلئے جو تین ارب روپے کا جو بجٹ رکھا گیا ہے اسے صوبائی سیکرٹریٹ کے طور پر استعمال کیا جائے اور بلا تاخیر صوبے کیلئے اقدامات کئے جائیں ، سیکرٹریٹ کے مقام کے مسئلے پر ملتان ، بہاولپور یا لودھراں میں تفریق پیدا کرنے کی بجائے پورے وسیب کی حدود کو سامنے رکھ کر پرکار چلا دی جائے ، جو درمیان بنے اسی جگہ نیا شہر بسا کر اسے دارالحکومت قرار دے دیا جائے ۔ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان دریائے سندھ پر نشتر گھاٹ کی تعمیر سے یہ شہر براہ راست ضلع رحیم یارخان اور ضلع بہاولپور سے مل گیا ہے ۔ سی پیک منصوبے کی آمد سے اس علاقے کو چار چاند لگ گئے ہیں ۔ ملتان سکھر موٹر وے نے فاصلوں کو کم کر دیا ہے ، کوٹ مٹھن سے ملتان پانچ گھنٹے کا سفر محض دو گھنٹوں میں سمٹ گیا ہے ۔ نشتر گھاٹ کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ پر ایک پل روجھان اور رحیم یارخان کو ملانے کیلئے بھی تکمیل کے قریب ہے ۔ اس سے فاصلے مزید سمٹ جائیں گے ، خطے میں نئے امکانات اور نئے جہان پیدا ہو رہے ہیں ۔ علاقے کے لوگوں میں نئی سوچ کروٹ لے رہی ہے ۔ راجن پور سے گزرنے والے انڈس ہائی وے پاکستان کی سب سے بڑی شاہراہ ہے ۔ پشاور سے کراچی تک اس کا ساڑھے چار سو کلومیٹر فاصلہ کم ہوتا ہے ۔ یہ 1965ء کا منصوبہ ہے ، جوکہ ایوب خان کے دور میں بنا ، ایوب خان اس پر کام نہ کراسکے ، البتہ بھٹو دور میں کچھ کام ہوا ، ضیاء الحق اور نواز شریف دور میں کوئی کام نہ ہوا ، بے نظیر بھٹو نے اس منصوبے پر کچھ کام کرایا، جس کے نتیجے میں پشاور سے کراچی تک انڈس ہائی وے سنگل سڑک کی شکل سامنے آئی ، اس سڑک کو موٹر وے بنانے کی ضرورت ہے ، سردار عثمان خان بزدار نے کشمور سے ڈی جی خان تک اسے دو رویہ کرنے کی منظوری دی ہے ،لیکن ڈر ہے کہ یہ منظوری کورونا وائرس بحران کے باعث کئی سالوں کے لئے التوا کا شکار نہ ہو جائے ۔ سردار عثمان بزدار کو موقع ملا ہے تو ان کو وسیب کی ترقی اپنی ترجیحات میں شامل کرنی چاہئے ۔ تاریخی پس منظر دیکھا جائے تو راجن پور کو 1982ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا ، اس سے پہلے یہ دیرہ غازی خان کی تحصیل تھا ، راجن پور کی تحصیلوں میں جام پور اور روجھان شامل ہیں ۔ راجن پور کی بنیاد 1732ء میں سیت پور کے زمیندار مخدوم شیخ راجن شاہ نے رکھی ، یہ شہر ابھی ترقی کی منازل طے کر رہا تھا کہ 1883ء میں شدید سیلاب آیا ، جس میں یہ شہر غرق ہو گیا ۔ پھر نئے سرے سے آباد کر کے سیلاب سے بچانے کیلئے ’’ بچا بند‘‘ تعمیر کیا گیا ۔ راجن پور کے ساتھ دریائے سندھ بہتا ہے ، ایک طرف ڈی جی خان، دوسری طرف ضلع رحیم یارخان ، تیسری طرف ضلع مظفر گڑھ اور مغرب میں کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ ہے ۔ رحیم یارخان کی طرح ضلع راجن پور بھی تین تہذیبوںسندھ، سرائیکی ، بلوچستان کا سنگم ہے ۔ اس علاقے میں بہت سے تاریخی مقامات ہیں ، جس میں قلعہ ہڑند، قلعہ دلو رام ، دھریڑہ کھیڑ ، بھمبھ کھیڑ، بیچرا کھیڑ ، و دیگر شامل ہیں ۔ تاریخ راجن پور کے مطابق دنیا کو سب سے پہلا اور درست کیلنڈر دینے والے بکرما اجیت کا تعلق بھی آج کے ضلع راجن پور سے تھا ۔ ضلع کے تحصیل ہیڈ کوارٹر کے ساتھ ساتھ دیگر قصبہ جات کوٹ مٹھن ، فاضل پور ، حاجی پور اور داجل وغیرہ بھی بہت قدیم ہے ۔مرکزی اہمیت کا حامل شہر کوٹ مٹھن ہے جو کہ عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے حوالے سے علم و عرفان کا مرکز ہے ۔ راجن پور کے نواحی قصبہ جات آج تک حکمرانوں کی توجہ سے محروم رہے ۔شکار پور ایک ایسا قدیم قصبہ ہے ، جس پر آج تک توجہ نہیں دی گئی ، اس قصبے نے علم و حکمت کے جوہرِ نایاب پیدا کئے ، معروف اہل قلم ارشاد عارف ، صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کے بزرگوں کے علاوہ سرائیکی زبان کے بہت سے اہل قلم نے اسی سرزمین پر جنم لیا ۔معروف رائٹر و صوبہ مغربی پاکستان کے چیف انجینئر سید نور علی ضامن حسینی اور سائنسدان ڈاکٹر محمد عبداللہ خان ، خواجہ نور محمد ناروالا کا تعلق بھی ضلع راجن پور سے ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ انسانی فلاح کے حوالے سے ان لوگوں نے بڑے کام کئے اور آج بھی ان کے نام زندہ ہیں ۔ ضلع راجن پور میں وسیع جاگیروں کے مالک بڑے بڑے سردار اور تمندار رہتے ہیں ، انگریز دور سے لیکر آج تک کسی نہ کسی حوالے سے وہ حکومت کے اہم ترین مناصب پر فائز چلے آ رہے ہیں مگر انہوں نے وسیب کی محرومیوں کے خاتمے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔