فراز نے کہا تھا: رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا یہ ساری بات کہی اور ان کہی کے درمیان کی ہے‘ سمجھنے کی اور نہ سمجھانے کی۔ بس یہی فنکاری اور آرٹ ہے شیخ رشید نے کہا کہ انہیں وزیر اعظم نے وزارت اطلاعات کی پیش کش کی تو وہ تو شکریہ کہہ دیں گے کہ فواد ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ ہیں نہیں لگتے بھی ہیں‘ کئی لحاظ سے۔ دوسری طرف فواد چودھری نے کہا ہے کہ وہ شیخ صاحب کے لئے سیٹ خالی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ افتخار درانی نے کہا کہ خبر میں کوئی صداقت نہیں۔ آخری خبروں تک شیخ رشید نے اپنے دعوے سے یوٹرن بھی لے لیا۔ گویا وہ عمرانی انداز اپنا چکے۔ بات یہ کہ اب سارا زور نان ایشوز پر چل کر آ رہا ہے۔ بندہ پوچھے فواد چودھری کی جگہ شیخ رشید آ جائیں گے تو کون سا کوئی قیامت آ جائے گی۔ شیخ صاحب فواد چودھری کے مقابلے میں اپوزیشن کو مزید کیا کچھ کہہ لیں گے۔ یہ سب کچھ عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کیا جاتا ہے کہ کوئی فضول سی بات فلوٹ کر دی جاتی ہے۔ عوام تو دیکھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کیا جا رہا ہے۔ ان کے حصے میں تو مہنگائی آئی ہے۔ کبھی کوئی بہانہ اور کبھی کوئی بہانہ اور نتیجہ صرف مہنگائی اور مہنگائی۔ حکومتی اراکین کی طرف سے پروٹوکول نہ لینے اور کفایت شعاری کی ساری باتیں یکسر نظر انداز کر دی گئیں۔ وزارت کی رہائش گاہوں کو آراستہ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ابھی تک تبدیلی کے خواب خواب ہی نظر آ رہے ہیں حتیٰ کہ تعبیریں بھی ابھی صرف خواب ہی ہیں۔ دیکھا جائے تو ایک چیف جسٹس ثاقب نثار ہیں جو دیوانوں کی طرح عوامی مسائل پر دوڑ دھوپ کرتے نظر آتے ہیں۔ بات تو درست لگتی ہے کہ ابھی تک اگر ہسپتالوں کی صورت حال بہتر نہیں ہو سکی تو باقی کیا ہو گا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کم از کم مرنے کے لئے تو کچھ سہولت مہیا کر دینی چاہیے۔ غریب کا مرنا اس کے جینے سے بھی مشکل ہے۔ درد ہو تو دوائی نہیں بیمار ہو تو مسیحائی نہیں اور ہسپتال پہنچے تو پذیرائی نہیں۔ ایک بیڈ پر تین تین مریض۔ کہاں آتش یاد آیا: نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے جو باتیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیں یہ سب کو معلوم ہیں کہ یہاں علاج صرف صاحب حیثیت ہی کروا سکتا ہے۔ ہسپتالوں کے فنڈز بہت ہی کم ہیں اور وہ بھی اچھے طریقے سے استعمال نہیں ہو رہے ہیں مادہ پرستی کی دوڑ میں مسیحا بھی اسی طرح شامل ہیں۔ ان کے لئے خون بیچنا اور اس پر کمیشن لینا عام سی بات ہے۔ دوائی وہی لکھی جائے گی جس پر کمیشن آئے گا۔ ہزاروں قباحتیں ہیں۔ بنیادی بات ہماری اللہ سے دوری اور اس کے خوف کا ختم ہو جانا ہے۔ انسانیت تو نام کی حد تک بھی نہیں رہی۔ وہی کثرت کی جستجو اور اسی دوڑ میں ہلاکت اور پھر قبروں میں جا پہنچنا۔ حرف صداقت کس طرح پورا ہوتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے کوئی بھی ٹھہر کر سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ انجام کار آخر کیا ہو گا: فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے میں کوئی نصیحت نہیں کر رہا۔ ایک سچ بیان کر رہا ہوں کہ شاید میں خود بھی چونک کر جاگ جائوں کہ ہمیں غفلت نے سلا رکھا ہے۔ ٹھیک ہے آنکھیں کھلی ہیں مگر کھلی آنکھوں کو اگر نظر نہ آئے تو آپ اسے کیا کہیں گے۔ آنکھیں اس وقت دیکھتی ہیں جب ذہن اور دل جاگ رہا ہو۔ دیکھنے کے لئے تو ارتکاز اور یکسوئی چاہیے۔ نظر انہی کو آتا ہے جو وہ کچھ بھی دیکھ لیتے ہیں جو آگے آنے والا ہے۔ وہ ایثار کرتے ہیں اپنی ضروریات کم کرکے دوسروں کے کام آتے ہیں۔ وہی جو کہا گیا کہ باقی وہی بچا جو اللہ کے راہ میں خرچ ہو گیا۔ یہاں تو دوسرے کے مال پر نظر ہوتی ہے۔ اس کو ہتھیانا ہی فنکاری سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ثاقب نثار صاحب کی باتیں ایک reminderہی تو ہیں۔ ایک شعر ذہن میں آ گیا: کبھی دکھ کسی کو دیا نہیں‘ مجھے اے خدا ترا خوف تھا ترا خوف بھی تری دین ہے بھلا اس میں میرا کمال کیا کبھی کبھی یقینا ہر شخص سوچتا ضرور ہے کہ واقعتاً یہ دنیا کی دوڑ دھوپ اور چکر بازی آخر کس کام آتی ہے۔ وقت کیسے ہمیں خرچ کر چھوڑتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں اپنے پامال ہونے کی خبر تک نہیں ہوتی۔ ہماری شہرت ‘ امارت اور حیثیتیں سب پڑی کی پڑی رہ جاتی ہیں۔ ہماری لالچ دریا کے دو کناروں کی طرح زندگی کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ ایک نشہ خون کا کم نہیں ہوتا: پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں آپ گورنر ہائوس کے بعد ایوان صدر کھول کر خوش ہوتے رہیں اور لوگ سلفیاں بناتے رہیں مگر یہ کور ایشو نہیں ہیں۔ کوئی ایوان صدر سے ہو بھی آیا تو کیا ہو گا۔ لوگوں کی خاص طور پر غریبوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کریں تو پھر بات ہے ہاں محاسبہ ضرور ہونا چاہیے جس طرح این آئی سی ایل میں سابق چیئرمین ایاز نیازی سمیت چھ افراد کو 77سال قید کی سزا ہوئی ہے۔ تجاوزات گرانا بھی اچھی بات مگر غریبوں کے جھونپڑوں کو گرا کر انہیں بے آسرا کرنا تو اچھی بات نہیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی تو کرپٹ اوربددیانت ثابت ہو چکی اب تو سارابوجھ پی ٹی آئی حکومت پر ہے کہ خود کو وہ دیانتدار اور ذمہ دار ثابت کریں کہ نظام چلتا دکھائی دے۔ سیاسی صورت حال دلچسپ بنائی گئی ہے۔ ن لیگ پیپلز پارٹی کے قریب نہیں آ سکتی اور یہ دونوں کے قریب پی ٹی آئی نہیں آئے گی۔کالم یہی تک پہنچا تھا کہ راولپنڈی سے مرے مہمان آ گئے۔ ان کے ساتھ گپ شپ میں شیخ رشید کی بات چلی تو مہمان بتانے لگے کہ لاہور تک کا کرایہ 380سے بڑھ کر 420 روپے ہو گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ 420کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا وگرنہ کرایہ 141یا 145کر دیا جاتا۔ پھر بھی ریلوے کے کرائے بہت کم ہیں۔ پرانے ریٹ 700سے 1100تک ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اتنا کرایہ کیوں لیا جا رہا ہے ہاں ایک بات کا اور پتہ چلا کہ ریلوے میں صفائی ستھرائی کا کام زیادہ اچھا ہو گیا ہے اچھی بات کو چھپانا نہیں چاہیے۔ اسی طرح جو زمینیں واگزار کرائی گئیں اس میں عدلیہ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ کچھ باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ادویات بہت مہنگی ہو گئی ہیں اور دوسری بات کہ زندگی بچانے والی دوایاں بھی خالص نہیں ملتیں۔ وہی جو محاورتاً کہا جاتا ہے کہ اب زہر بھی خالص نہیں۔ زندگیوں سے کھیلنے والوں کی سزا بھی یہی ہے کہ انہیں موت کی سزا دی جائے لوگوں کو تو کام چاہیے اس سے غرض نہیں کہ وزیر اطلاعات شیخ رشید ہو یا فواد چودھری۔ ایک کام دونوں کرتے تھے۔شیخ رشید ہنس کر اور فواد چودھری سنجیدگی سے۔ وہ کسی بھی جماعت میں چلے جائیں وہاں بھی یہی کام کریں گے۔ خیر چھوڑیے: ہم نے جو کچھ بھی کیا تیری محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی ہو جائے جو چاہت تو ٹپ پڑتی ہے خود آنکھوں سے اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی