وزیراعظم عمران خان نے تونسہ سے تعلق رکھنے والے بزدار قبیلے کے سردار عثمان خان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا ہے ۔ نامزد وزیراعلیٰ پڑھے لکھے سیاستدان ہیں اور ان کا تعلق قانون دان طبقے سے ہے ۔ ان کا انتظامی تجربہ سیاسی وژن اور بیورو کریسی کو چلانے جیسی اہلیت کا پتہ بعد میں چلے گا تاہم خاندانی پس منظر کے مطابق موصوف یکم مئی 1969 ء کو تمن بزدار کے تمندار فتح محمد خان بزدار کے گھر بارکھی میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے اور گریجویشن اور ایل ایل بی کی ڈگری ملتان سے حاصل کی ۔ 1998ء میں ممبر ضلع کونسل منتخب ہوئے ۔ 2001ء اور 2005ء میں ٹرائبل ایریا کے تحصیل ناظم رہے۔ 2018ء کے الیکشن سے قبل جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنا تو موصوف اس میںشامل ہوئے اور جب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ تحریک انصاف میں ضم ہوا تو عمران خان سے 100 دن میں صوبہ بنانے کا تحریری عہد لیا گیا ، سردارعثمان خان بزداراس کا حصہ تھے۔ بنیادی طور پر وہ تحریک انصاف نہیں بلکہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے آدمی ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ صوبہ محاذ نے پنجاب سے صوبہ لینا تھا یا وزارت اعلیٰ ؟ ہماری نیک خواہشات اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں لیکن اصولی طور پر ان کو وزیراعلیٰ نہیں بننا چاہئے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ پنجاب سے صوبے کی ڈیمانڈ کر رہا ہے نہ کہ وزارت اعلیٰ کی ۔ خوف آتا ہے کہ کہیں صوبے کامنصوبہ ایک بار پھر وزارت اعلیٰ کی بھینٹ نہ چڑھ جائے ، ایسی مثال پہلے موجود ہے کہ ن لیگ نے ملتان کے ملک رفیق رجوانہ کو گورنر بنا کر صوبے کا مقدمہ داخل دفتر کر دیا تھا۔ نامزد وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ پسماندہ علاقے کی پسماندگی کو دور کریں گے اور سب کو ساتھ لیکر چلیں گے اور چوہدری پرویز الٰہی کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں ، خدا کرے کہ وہ ایسا کر سکیں ۔ لیکن جہاں تک پسماندگی کا تعلق ہے تو سوال یہ ہے کہ اس پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے؟ سردار عثمان خان کا قبیلہ جدی پشتی تمندار چلا آ رہا ہے ۔ موصوف کے والد سردار فتح محمد خان بزدار اس علاقے کے تمندار ہونے کے ساتھ ساتھ ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن اورتین مرتبہ ممبر صوبائی اسمبلی بھی رہے ہیں ۔ ان کا سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی سے قریبی تعلق بھی رہا کہ وزیراعلیٰ ان کی دعوت پر ان کے گھر آئے مگر تونسہ کی ضلعی حیثیت یا علاقے کیلئے میگا پراجیکٹ تو اپنی جگہ رہے تعلیم، صحت ، روزگار میں سے کوئی ایک چھوٹا سا منصوبہ بھی حاصل نہ کیا جا سکا ۔ اب سوال یہ ہے کہ جس طرح شہباز شریف نے لاہور کو ترقی دی ،کیا بزدار صاحب ایسا کر سکیں گے ؟ سوال یہ بھی ہے کہ وہ عارضی وزیراعلیٰ ہے یا مستقل ؟ بے اختیار یا با اختیار؟ اگر ہم پس منظر میں جائیں تو سب جانتے ہیں کہ 1990ء میں سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے غلام حیدر وائیں کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا ۔ مگر وہ نام کے وزیراعلیٰ تھے ، اختیارات میاں صاحبان خود استعمال کرتے تھے ۔ 28 سال بعد دوسرا موقع آیا ہے کہ سردار عثمان خان بزدار کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے ۔ گو کہ اس دوران عارضی طور پر سردار دوست محمد خان کھوسہ کو بھی پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا مگر ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ چنداں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ البتہ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا سردار عثمان خان کو بھی غلام حیدر وائیں کی طرز کا وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے کہ وزارت اعلیٰ کے ساتھ ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کے ممبران میں نامزد گورنر چوہدری سرور، سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اور تحریک انصاف کے ایم پی اے علیم خان اور سردار عثمان خان بزدار خود کمیٹی میں شامل ہیں ۔ بتایا گیا ہے کہ یہ کمیٹی مل کر پنجاب کے معاملات چلائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے صوبوں میں بھی اس طرح کی کوئی کمیٹی بنائی گئی ہے یا وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے عہدے کیلئے اس طرح کی کوئی کمیٹی بنائی ہے ؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر کوئی محض عثمان بزدار کیلئے اس طرح کی کمیٹی کا کیا جواز ہے ؟ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اصولی طور پر صوبہ محاذ کے رکن کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری اپنے گلے میں نہیں ڈالنی چاہئے، صوبہ محاذ کی تمام قیادت کو محاذ کے اصل مقصد کی طرف آتے ہوئے وزارت اعلیٰ کی بجائے صوبے کی ڈیمانڈ کرنی چاہئے ۔ افسوس صرف اس بات کا نہیں کہ صوبے کے مقصد کو پس پشت ڈال کر اس صوبے کی وزارت اعلیٰ لے لی گئی جس سے وہ صوبہ مانگ رہے تھے ۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوس اس بات کا ہے کہ نامزد وزیراعلیٰ نے اپنے پہلے بیان میں صوبے کا ذکر تک نہیں کیا ۔عمران خان صاحب! آپ کو وزارت عظمیٰ مبارک ہو ، آپ نے سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ہے ۔ حلف لینے کے بعد الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے ، ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔ آپ مہربانی کریں سرائیکی وسیب کو پنجاب کی وزارتیں یا وزارت اعلیٰ کی بجائے صوبہ دیں ۔ تبدیلی کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی ہے کہ عمران خان اور سردار عثمان خان میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے ۔ عمران خان نے تبدیلی کے نام پر ووٹ حاصل کئے پورا پاکستان خصوصاً سرائیکی وسیب کے لوگ تبدیلی کے سب سے زیادہ آرزو مند ہیں کہ وسیب کے لوگ جاگیرداری اور تمنداری سے عاجز آ چکے ہیں ۔ انگریزوں نے ایک ظلم یہ کیا کہ صوبہ ملتان کو پنجاب میں شامل کیا ، دوسرا ظلم 9 نومبر 1901ء کو یہ کیا کہ وسیب کے ٹانک ڈی آئی خان اور بنوں صوبہ سرحد میں شامل کر دیئے ، تیسرا یہ کہ انگریزوں نے اپنے وفاداروں کو جاگیریں دینے کے ساتھ ساتھ سرائیکی علاقے کے ضلع دیرہ غازی خان میں یہ ظلم بھی کیا کہ وہاں کے پہاڑی علاقوں میں تمنداریاں قائم کیں ، ان میں تمن مزاری ، تمن دریشک ، تمن گورچانی ، تمن لغاری ، تمن کھوسہ ، تمن لُنڈ ، تمن قیصرانی اور تمن بزدار شامل ہیں ۔ انگریزوں نے تمنداروں کی الگ الگ حد بندیاں قائم کیں اور ان کو مجسٹریٹوں کے اختیار کے ساتھ بارڈر ملٹری پولیس رکھنے کا اختیار دیا ، وہاںبنیادی انسانی حقوق سلب کر لئے گئے اور وہاں کے انسانوں کو قرون اولیٰ کی طرف دھکیل دیا گیا۔ تمن میں رہنے والے انسانوں کی تقدیر کے فیصلے وہاں کا تمندار کرتا ہے، آج بھی ان کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب اسمبلی نے غیر انسانی ، غیر آئینی اور غیر اخلاقی تمنداروں کے خاتمے کیلئے متفقہ قرارداد منظور کی مگر اس پر عمل نہیں ہو سکا ۔ عمران خان اور سردار عثمان خان کی پہلی تبدیلی تمنداریوں کے خاتمے کے نوٹیفکیشن کی صورت میں آنی چاہئے ۔ ورنہ لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ کیا جاگیرداری اور تمنداری کو مضبوط کرنے کا نام تبدیلی ہے ؟