وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ سے واپسی پر متعدد سفارتکاروں کو تبدیل کرنے کی منظوری دی ہے۔امکان ہے کہ بہت جلد وفاقی کابینہ میں وزراء کی ذمہ داریاں تبدیل ہو سکتی ہیں یا کچھ اراکین کابینہ کو فارغ کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی جگہ سینئر سفارت کار منیر اکرم کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل برائے اقوام متحدہ خلیل احمد ہاشمی کو جنیوا دفتر کے لیے مستقل سفیر کی ذمہ داریاں تفویض کی جا رہی ہیں۔ پیانگ یانگ، کویت اور ہنگری کے سفیر تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ مسقط اور ہیوسٹن کے سفارتکار تبدیل ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی نئے سفیر تعینات کرنے کی منظوری دی ہے۔ بعض رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی اپنی چار سالہ تعیناتی کی مدت گزشتہ ماہ مکمل کر چکی تھیں مگر جنرل اسمبلی کے اہم اجلاس کے باعث انہیں فوری طور پر تبدیل نہ کیا گیا۔ سفارت کاروں کے تبادلے اور تعیناتیوں کا معاملہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو زیادہ مربوط اور فعال انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ تحریک انصاف برسراقتدار آئی تو اس کے سامنے داخلی و خارجہ پالیسی، بلا مقصد اور بلا ہدف معمول کے بین الاقوامی تعلقات کا تحفظ کرتی آ رہی تھی۔ پاکستان کی سلامتی کو جن خارجی خطرات کا سامنا تھا وزارت خارجہ اور اس کے ما تحت ادارے مؤثر انداز میں ان سے نمٹنے میں ناکام دکھائی دیئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو قومی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی مہلت نہ مل سکی لیکن چند ماہ میں جس قدر ممکن ہو سکا انہوں نے کشمیر، فلسطین، عالم اسلام اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں رہنما اصول بیان کر دیئے۔ذوالفقار علی بھٹو نے خارجہ پالیسی کو سپرپاور کا درجہ رکھنے والی ریاستوں کے مفادات سے ہم آہنگ کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر توجہ ملی۔ بھارت کا حجم اور معاشی طاقت سات گنا چھوٹے پاکستان کے لیے دبائو تھا۔ اس حجم کے ساتھ بھارت پاکستان پر اثرانداز ہو سکتا تھا۔ پاکستان نے بھارت سے بڑے اور عالمی سطح پر زیادہ مؤثر ملک چین کے ساتھ دوستانہ تعلق استوار کر کے اپنی طاقت میں اضافہ کیا۔ اس دوران امریکہ سے سٹریٹجک شراکت داری نے پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مضبوط بنایا۔ افغانستان میں سوویت مداخلت کے خلاف مزاحمت تک خارجہ پالیسی کی صورت یہی رہی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تبدیلی آئی۔ یہ تبدیلی امریکہ بھارت شراکت داری کی وجہ سے پاکستان کے لیے تشویشناک ہے۔ نئی صورتحال نے پاکستان کے لیے جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پر نئے اتحادی تلاش کرنے کی ضرورت پیدا کی ہے۔ پاکستان کو بھارت اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے جس پروپیگنڈے کا سامنا ہے اس کا سفارتی سطح پر مؤثر جواب دینا ضروری ہے۔ جواب نہ دے کر سابق حکومت نے بھارت کی جارحانہ سفارت کاری کو موقع دیا کہ پاکستان کا عالمی سطح پر تشخص اور ساکھ مجروح کرے۔ وزیر اعظم نے عرصہ سے ہائی کمشنر سے محروم بنگلہ دیش میں سفیر تعینات کر کے قابل تحسین فیصلہ کیا۔ اس طرح اقوام متحدہ میں مستقبل کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر مستقل مندوب اور دیگر عہدیداروں کی تبدیلی سے اچھی امیدیں ہیں۔ وطن واپسی پر وزیر اعظم نے ان وزراء کو تبدیل کرنے یا ان سے وزارت کی ذمہ داریاں واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جن کی کارکردگی بہتر نہیں۔ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے وزراء کی کارکردگی کا ہر تین ماہ بعد جائزہ لیں گے اور غیر تسلی بخش کارکردگی دکھانے والے سے ذمہ داریاں واپس لے لی جائیں گی۔ تاحال صورت حال یہ ہے کہ اکثر وزرائ، مشیر اور معاونین خصوصی کو اپنے اختیارات، ذمہ داریوں اور اہداف کا درست علم نہیں۔ عمران خان اپنی ہر تقریر میں ریاست مدینہ اور اس کی گورننس کا فلسفہ بیان کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر وزراء کرام اس تصور سے نابلد دکھائی دیتے ہیں۔ وزراء اور کابینہ کے دیگر اراکین اپنی جماعت کے کارکنوں سے مضبوط رابطہ استوار نہیں کر سکے۔ عمران خان سے 208ارب روپے کے ٹیکسز معاف کرانے کا فیصلہ کرانے والے دوسری بار بھی ایسی کوششیں کر چکے ہیں۔ وزراء کرام کی غیر متاثر کن کارکردگی کا بوجھ وزیر اعظم پر آتا ہے جس سے ان کی یکسوئی اور بین الاقوامی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ مسئلہ صرف سفارتی اور وزارتی سطح پر نہیں انتظامی معاملات بھی کئی شعبوں میں دگرگوں ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ریاست کسی ایک فرد یا ایک شعبے کی مسلسل محنت یا توجہ سے نہیں چلتی۔ بحرانوں سے نکلنے کے لیے انتظامی مشینری، حکومت اور سفارت کاروں کو پروایکٹو سوچ اپنانا پڑتی ہے۔ دشمن کے وار کا انتظار کر کے اسے جواب دینے کے لیے رد عمل کی حکمت عملی پاکستان کے لیے ہرگز فائدہ مند نہیں ہو سکتی، پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ پاکستان کے عوام بیرونی مداخلت کی وجہ سے اپنی سماجی اور معاشی ضرورتوں میں خود کفیل نہیں ہو سکے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران ان تمام ترجیحات کو عالمی برادری کے سامنے پیش کر دیا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندوں کے لیے اہم ہیں۔ وزیر اعظم حکومتی، انتظامی اور سفارتی مشینری کو ایک سوچ پر متحد کرنے کے لیے اگر اپنی فیلڈنگ تبدیل کر رہے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔