کہا جاتا ہے کچھ صدیاں قبل ایک جاہ و جلال والے بادشاہ کاایک وسیع و عریض لق و دق صحرا سے گزر ہوا۔بادشاہ نے دیکھا کہ عوام الناس پانی کی تلاش میں برتن اْٹھائے دو ر دراز علاقوں کا سفر کیا کرتے جو یقینا جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس لئے بادشاہ نے عوامی مفاد کے پیش ِ نظر اپنے وزیراعظم کو لق و دق صحرا میں ایک کنواں کھودنے کی ہدایات جاری کردیں اورخود محل کی جانب چل پڑا۔ وزیراعظم نے کنواں کھدائی کی وزارت قائم کردی جس نے متعلقہ محکموں کو ہدایت جاری کردی۔ طے ہوا کہ کنویں کی کھدائی کیلئے تین افراد ملازمت پہ رکھے جائیں گے۔ پھر کسی نے مشورہ دیا کہ آٹھ گھنٹوں کی شفٹ میں کنویں کی کھدائی کھٹائی کا شکار ہوسکتی ہے اس لئے آٹھ آٹھ گھنٹے کی تین شفٹوں کیلئے کم از کم نو افراد ملازمت پہ رکھے جائیں۔وزیر ِ خاص نے مشورہ دیا کہ اگر کسی شفٹ میں کوئی بندہ غیر حاضر ہوگیا یا بیمار پڑ گیا تو شفٹ کا کام رک جائیگا اس لئے ہر شفٹ میں ایک ایک بندہ اضافی تعینات کیا جائے تاکہ کام کی روانی میں خلل نہ پڑسکے۔ پھر ایک مشورہ دیا گیا کہ ہر شفٹ پہ ایک شفٹ انچارج مقرر کیا جائے تاکہ سبھی ملازمین دلجوئی سے کام کرسکیں۔ یوں پندرہ مزدوروں پر مشتمل ایک منظم ٹیم نے کنویں کی کھدائی کا کام شروع کردیا۔ کام جاری تھا کہ مشیرِ خاص کی جانب سے پھر ایک تجویز دی گئی کہ معلوم ہوا کہ شفٹ پہ کام کرنیوالوں نے اپنے اپنے شفٹ انچارجز کو ساتھ ملا لیا ہے۔ اس لئے ایک چھوٹا سا محکمہ قائم کیا جائے جو کام کی رفتار کو مانیٹر کرسکے۔ یوں چند کمروں پر مشتمل ایک مانیٹرنگ سیل قائم کیا گیا جس میں پھر ہر شفٹ کیلئے ایک ایک مانیٹرنگ افسر اور ان پر ایک بڑا افسر تعینات کیا گیا۔ مانیٹرنگ سیل نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ایک شفٹ دوسری شفٹ سے کم کام کررہی تھی یوں دوسرے ملازمین میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ یوں احتساب کیلئے ایک اور محکمہ قائم کیا گیا تاکہ سزا و جزا کا نظام قائم کیا جاسکے۔ اس محکمہ کی تجویز پر ایک سپیشل عدالت قائم کی گئی تاکہ سزا و جزا پہ عمل کروایا جاسکے۔ جب محکموں اور ان میں کام کرنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی تو ایک سکول کی تجویز دی گئی تاکہ ان افراد کے بچے نزدیکی سکول میں پڑھ سکیں۔ بچوں کے کھیلنے کیلئے ایک پارک بنایا گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب کچھ لوگ بیمار ہونے لگے تو نزدیک ایک ہسپتال قائم کیا گیا تاکہ فوری علاج کروایا جاسکے۔ بڑی عمر کے افراد کیلئے ایک اور پارک قائم کیا گیا تاکہ شام کے وقت وہ چہل قدمی کرسکیں۔ کنویں کی کھدائی جاری تھی کہ کسی گھر میں چوری ہوگئی جس پر ایک پولیس اسٹیشن کی تجویز پر عملدر آمد ہوا اور پہرہ داری کیلئے پولیس کا نظام قائم کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد پولیس کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ افراد نے کنویں کی کھدائی کے اوزار چرا لئے۔ جس پر ایک چیک پوسٹ قائم کی گئی جس پر پھر تین شفٹوں پر فوجی ملازمین تعینات کیے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک ٹاؤن کی شکل اختیار کرگیاجس میں باوردی افراد نے ایک گالف کلب بنا لیا تاکہ فارغ وقت میں چہل قدمی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے من پسند کھیل گالف سے محظوظ ہوسکیں۔ دودھ دہی کیلئے دکانیں کھل گئیں، کریانہ سٹور کھل گئے۔اشیاء خوردو نوش کیلئے سٹورز اور سبزی منڈی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جانور پالنے کیلئے باڑے قائم کئے گئے اور جانوروں کی افزائش ِ نسل اور حفظانِ صحت کیلئے جانوروں کا ہسپتال بھی قائم کیا گیا۔ اس دوران عام مزدور کھلے عام گالف کلب میں آنے جانے لگے،عام شہریوں کااعلیٰ سرکاری افسران کی رہائشگاہوں کی طرف چکر لگانے پر اس ٹاؤن کے اعلیٰ افسران نے سوچا کیوں نہ ایک الگ ہاؤسنگ کالونی قائم کی جائے جس میں اعلیٰ سطح کی رہائش گاہوں کے ساتھ ساتھ جدید سہولیات سے لیس سکول، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال اور دیگر سہولیات میسر ہوں۔ یوں اس لق و دق صحرا میں ایک بڑی رہاشی کالونی قائم کی گئی جسکے گرد اس قدر اونچی چار دیواری اْٹھادی گئی جسکے پار دیکھنا عام انسان کے بس کی بات نہ تھی۔ اس دوران اعلیٰ افسران نے یہ طے کیا کہ کچھ سہولیات کی فراہمی کیلئے بڑے شہر کی طرف آمدورفت ضروری ہے اس لئے فوری طور پر بلدیات کا محکمہ قائم کیا جس کے ذمہ اونچی دیوار والی رہائشی کالونی کیساتھ عوام یا عام شہریوں اور مزدوروں کی رہاش گاہوں تک سڑکوں کا جال بچھانا تھا۔چونکہ پانی کا مناسب انتظام نہ تھا اس لئے بڑے بڑے ٹینکوں کی مدد سے سیوریج کا سسٹم قائم کیا گیا اور ورکنگ پیپر میں یہ نقطہ شامل کیا گیا کہ جلد کنویں کی کھدائی مکمل ہوجائے گی اس لئے پانی کی فراوانی ہوگی۔ کچھ عرصہ بعد اْسی بادشاہ کا دوبارہ اس لق و دق صحرا سے گزر ہوا تو اْس نے صحرا کے عین وسط میں روشنیوں سے چکا چوند شہر کی طرف دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا کہ یہ شہر اس ویرانے میں کیسے آباد ہوا؟ جس پر وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ عزت ماب عالی جناب، شہنشاہ ِ معظم، ظلِ الٰہی یہ شہر خود شاہ عالم کے فرمان عالی شان پر قائم کیا گیا تھا۔ اس شہر کے قیام کے پیچھے وزیراعظم نے غریبوں کی بھلائی کیلئے کنویں کے منصوبے بارے آگاہی دی۔ بادشاہ یہ جان کر خوش ہوا کہ یہ تو واقعی عوامی فلاح و بہبود کا منصوبہ ہے اور محض اْس ایک منصوبے کی بدولت صحرا میں پورا شہر آباد ہوگیا تھا۔ بادشاہ سلامت نے فوری طور پر کنواں دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بادشاہ جاہ و جلال کے ساتھ جب کنویں کے قریب پہنچا تو اْس کی پہلی نظر ایک عظیم الشان دفتر پر پڑی جس کی پیشانی پر وہاں تعینات چیف انجینئر (صدارتی ایوارڈ، عدالتی ایوارڈ یافتہ) کے متعلق تفصیل درج تھی۔ بادشاہ مْسرت سے لبریز ہوگیا کہ یہ واقعی ایک عظیم الشان منصوبہ ہے کہ جس کی تکمیل کیلئے اس قدر اعلیٰ افسران تعینات رہے۔ اس دوران بادشاہ سلامت کو اْس کنویں پر لے جایا گیا۔بادشاہ دیکھ کر حیران ہوا کیونکہ کنویں کی کھدائی رْک چکی تھی۔ کچھ بالٹیاں اور کھدائی کے کچھ پرانے اوزار خستہ حال کنویں کیساتھ پڑے تھے اورلڑ ھکتی ہوئی دیوار پر ایک پھٹا پرانا بورڈ آویزاں تھا جس پر ’کنویں کی کھدائی کیلئے مخیر حضرات تعاون کریں‘ درج تھا۔ بادشاہ نے کنویں کی جانب دیکھا، پھر وزیراعظم کی جانب دیکھا اور پھر عالی شان شہر کی روشنیوں کی طرف دیکھا اور انتہائی ندامت سے محل کی جانب چل پڑا۔ کچھ دوربادشاہ کی نظر خواتین، بوڑھوں اور بچوں کی ایک قطار پر پڑی جنہوں نے اپنے سروں پر برتن اْٹھارکھے تھے لیکن بادشاہ سلامت کو دوبارہ اْن سے پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ یہ برتن اْٹھا کر کہاں جارہے تھے؟ اگر ہم اپنے گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی کئی وزارتیں قائم نظر آتی ہیں جو مسلسل کھدائی میں مصروف ِ عمل ہیں۔