13 مارچ 2022ء کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے حافظ آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ بلا شبہ یہ ایک بڑا جلسہ تھا اور حاضرین بھی بہت پرجوش تھے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اب ایک سال میں اتنے ترقیاتی کام ہونگے جتنے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ وزیر اعظم ایک سچے انسان ہیں انہیں جو نظر آتا ہے اس کو سچ سمجھتے ہیں۔ ان کے قریب جو حلقہ ہے وہ ان کو بتاتا ہے کہ ملک کی برآمدات بڑھ گئی ہیں۔ فصل کی پیداور ریکارڈ ہوئی ہے۔گندم، مکئی، چاول، گنا کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ ان فصلوں کی پیداوار میں 10 فی صد سے زائد اضافہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف کھاد کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس کا ریکارڈ ساری دنیا میں نہیں ہے۔ 5000 سے کم والی ڈی اے پی 10 ہزار کی ہے۔ 1500 والہ یوریا 2200 تا 2500 کا ہے۔ لوگ اس بار کھاد اس طرح خرید رہے ہیں جیسے وہ مٹھائی خرید رہے ہوں۔ سٹاک کرنے والے افراد بڑی رازداری کے ساتھ اپنا منافع کما رہے ہیں۔مزدور نے بھی بہت ترقی کی ہے 180 والا کوکنگ آئل 400 تک پہنچ گیا ہے۔مزدوری جو پانچ سال پہلے 300 اور 400 ہوا کرتی تھی اب 600 کا ہو گئی ہے۔اگر مزدور دوگنی ہوئی ہے تو پچاس والی چینی 100 کی ہے۔وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ وہ آلو اور ٹماٹر کی قیمت روکنے نہیں آئے۔پنجابی کی ایک کہاوت ہے گلاں کرنیاں سوکھیاں تے اوکھے پالنے بول وعدے کرنے بہت آسان ہیں اور ان کو نبھانا بہت مشکل ہے۔مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ وزیراعظم کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ خیر یہ بات بھی سچ ہے ان کی دنیا میں سفر ہیلی کاپٹر اور جہاز پر ہوتا ہے ایک بار کار کے ذریعے سفر کریں تو ان کو پنجاب کی اصل ترقی نظر آ جائے۔ جو سفر پانچ سال پہلے کار پے پونے دوگھنٹے میں ہوتا تھا اب وزیر اعظم کے ترقی یافتہ دور میں سوا تین گھنٹے میں ہوتا ہے۔ 15 تا 20 کلو میٹر کا فاصلہ جو پہلے پندرہ بیس منٹ میں طے ہوتا تھا اب حکومت کی شاندار سڑکوں کی بدولت40منٹ تا ایک گھنٹے میں بندہ پہنچ جاتاہے۔ ملتان سے لیکر لاہور تک اور لاہور سے لیکر راولپنڈی تک شاندار جی ٹی روڈ حکومت کی ترقی کی کا منہ چڑا رہا ہے اور سڑکوں کے وزیر جناب مراد سعید جو کارکردگی میں نمبر ون ہے ہر ایک کلو میٹر میں پڑے کھڈے اور کہیں کہیں پر لگے ٹانکے ان کی کارکردگی پر لگی ہوئی مہریں ہیں۔ اگر آپ اس حکومت کی ترقی تلاش کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا بس پنجاب کی کسی بھی چھوٹی یا بڑی سڑک پر آ جائیں ایک ایک کھڈا ایک ایک جمپ آپکو حکومت کی شاندار کارکردگی اور ترقی کا ثبوت دے گا۔ترقی پے ایک قصہ یاد آیا۔ کہتے ہیں کہ ایک غریب کسان کسی بزرگ شخص کے پاس گیا اور اس کو اپنی غربت کا ماجرہ بیاں کیا۔بزرگ نے اس کسان کو ایک کچھوا دیا اور کہا کہ جب تم اس سے دن میں ایک بار پانچ روپے مانگو گے یہ تم کو پانچ روپے دے گا۔ کچھ دن اسی طرح گزر گئے کسان دن میں ایک بار پانچ روپے مانگتا اور کچھوا اپنے منہ سے پانچ روپے نکال کر اس کو دے دیتا۔ کسان لالچی تھا وہ دوبارہ بزرگ کے پاس پہنچا کہ حضور پانچ روپے میں گزارہ نہیں ہوتا کچھوے کو کہیں کہ دس روپے روزانہ دے۔ بزرگ نے یہ سن کر کسان سے کہا یہ کچھوا یہاں چھوڑ جائو میں تم کو زیادہ پیسے دینے والہ کچھوا دے دونگا۔ کسان نے پہلا کچھوا بزرگ کو واپس کیا اور نیا کچھوا لیکر گھر آگیا۔ گھر آکر کسان نے کچھوے کو کہا کہ مجھے دس روپے دے دو۔ کچھوا بولا دس کی کیا بات ہے بیس لے لو۔ کسان نے کہا بیس دے دو کچھوا بولا بیس کی کیا بات ہے تم پچاس لے لو۔ کسان نے کہا پچاس دے دو کچھوا بولا 100 روپے لے لو۔ کچھوا دو سو پے آگیا ، کسان تنگ آگیا تھا اس نے کہا تم دو سو کی بات چھوڑو مجے دس ہی دے دو۔ کچھوا بولا پیسے دینے والا کچھوا دوسرا تھا میں تو صرف باتیں کرنے والا ہوں۔ اس حکومت کی مثال بھی ایسی ہی ہے یہ ترقی کی باتیں کرنے والے ہیں ایک آنے کی کرپشن یہ پکڑ نہیں سکے ۔ ان کی ٹیم کے اہم کھلاڑی ایک ایک کر کے ٹیم سے باہر ہو گئے ہیں اور یہ ابھی تک ہمیں کرپشن اور ترقی کی راگنی سنا رہے ہیں۔ اسد عمر وزارت خزانہ سے گئے۔ جہانگیر ترین سیاست سے گئے۔ علیم خاں وزارت سے گئے۔ نواز شریف جیل سے برطانیہ چلے گئے۔ اسحاق ڈار ابھی تک واپس نہیں آئے۔ شہباز شریف، رانا ثنا اللہ ، حمزہ شہباز، سعد رفیق سب لوگ گھر سے جیل اور جیل سے گھر تک آگئے ہیں اور حکومت ابھی تک کرپشن کی کہانی سنا رہی ہے۔ چار سال گزر گئے اور حکومت ابھی تک کرپشن کی کہانیاں سنا رہی ہے۔نہ کرپشن کسی انجام تک پہنچی ہے نہ ترقی کا گیت کانوں میں رس گھول رہا ہے۔ وزیر اعظم صاحب قرآن کے حوالے بہت دیتے ہیں اور احادیث بھی بہت بیان کرتے ہیں کسی نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ قرآن لوگوں کے نام بگاڑنے سے منع کرتا ہے سورہ الحجرات کی آیت نمبر 11 کا ترجمہ کبھی دیکھ لیں۔امید ہے اس دن کے بعد وہ فضل الرحمان کو فضلو نہیں کہیں گے۔ وزیر اعظم صاحب کو کسی نے یہ نہیں بتایا قوم ایک دن میں نہیں بنتی سڑک بن جاتی ہے قوم بعد میں بنا لیں اب سڑکیں بھی بنا لیں کہیں ایسا نہ ہو مستقبل کی آدھی قوم اپنی ماؤں کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے سڑکوں پے دم توڑ دے۔