جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں کامیاب جوان پروگرام کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ بھارت پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور بلوچستان ، وزیرستان میں بد امنی پیدا کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی اعلان کیا کہ وزیرستان میں فوری طور پر تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ سروس بحال کی جا رہی ہے، جنوبی وزیرستان میں سکول ، کالج اور یونیورسٹی بنائیں گے ۔ ۔ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم کو ملک کے تمام علاقوں میں جانا چاہئے وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ وزیرستان کے لوگ خطِ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ،اس سے مجھے یاد آیا کہ وزیراعظم الیکشن سے پہلے وسیب کے دورے کے دوران بھی پورے اعداد و شمار کے ساتھ یہی بات کرتے تھے کہ وسیب کے لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ میاں برادران نے لاہور کو پاکستان سمجھ لیا ہے ، تمام وسائل لاہور پر خرچ کیے جا رہے ہیں مگر ڈھائی سال گزر گئے وزیراعظم وسیب کے دورے پر نہیں آئے ۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ملتان کیوں نہیں آتے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے مرکز ہونے کے ناطے ملتان کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو آٹھ دن لاہور اور آٹھ دن ملتان میں ہونا چاہئے۔سرائیکی وسیب کے لوگوں کا احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے ‘ تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تمام طاقتور قوتوں کی خدمت میں ’’ تاریخِ ملتان عہد بہ عہد‘‘ کے حوالے سے چند اوراق پیش کر رہا ہوں ‘ تاکہ حکمرانوں کو وسیب کی تاریخی اہمیت کا اندازہ ہو اور وہ اس خطے کی احساسِ محرومی کے خاتمے کیلئے اقدامات کر سکیں۔میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملتان ایک ذات کا نام نہیں بلکہ ایک کائنات کا نام ہے ۔ ماہرین آثار قدیمہ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ملتان کائنات کے ان شہروں میں سے ہے جو ہزاروں سالوں سے مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں ۔ ماہرین کا اس بات پر بھی کامل اتفاق ہے کہ تاریخ عالم میں ملتان صرف ایک شہر کے طور پر نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ایک سلطنت کے طور پر کرہ ارض پر موجود ہے۔ 373 ھ کی ایک تصنیف ’’ حدود العالم بن المشرق الی المغرب ’’ میں سلطنت ملتان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ملتان کی سرحدیں جالندھر پر ختم ہوتی ہیں ۔ ایک کتاب ’’ سید المتاخرین ‘‘ میں لکھا گیا ہے کہ یہ خطہ بہت زیادہ زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع و عریض بھی ہے ۔ ایک طرف ٹھٹھہ ، دوسری طرف فیروز پور، جیسلمیر اور کیچ مکران تک کے علاقے اس میں شامل تھے ۔ ابوالفضل کی کتاب ’’ آئین اکبری‘‘ میں درج ہے کہ ملتان بہت بڑی اقلیم ہے، اس میں تین سرکاریں ملتان خاص دیپالپور اور بھکر شامل تھے ، ملتان کی تہذیب و ثقافت بہت مضبوط ہے، یہ علاقہ بہت بڑا تجارتی اور ثقافتی مرکز ہے ۔ انقلابات کے زمانے اور ہزاروں سال سے حملہ آوروں کی ریشہ دانوں کے باوجود اس خطے اپنی منفرد تہذیبی شناخت کو قائم اور زندہ رکھا ہوا ہے ۔یہ بھی وقت اور حالات کی ستم ظریفی ہے کہ آج ملتان کو جنوبی پنجاب بنانے کے دلاسے دیئے جا رہے ہیں۔ کل ملتان کیا تھا اور لاہور کی کیا حیثیت تھی ؟ اس کا تذکرہ حضرت داتا گنج بخش ہجویری کی کتاب ’’ کشف المحجوب ‘‘ یکے از لاہور مضافاتِ ملتان کی صورت میں موجود ہے۔ آج ہم لاہور اور ملتا ن کے بارے میں عرض کریں گے کہ ’’ کیسے کیسے لوگ ایسے ویسے ہو گئے ، ایسے ویسے لوگ کیسے کیسے ہو گئے ‘‘ ۔ہندی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ ’’ آگرہ اگر ، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ ۔ اسی طرح سرائیکی کہاوت ہے کہ ’’ جئیں نہ ڈٹھا ملتان ، او نہ ہندو نہ مسلمان ‘‘ ۔ ملتان کے بارے میں بہت سے شعراء نے شعر گوئی کی ۔ قدیم فارسی شعر حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کے نام سے منسوب ہے کہ ’’ ملتان ماء بجنت اعلیٰ برابر است ، آہستہ پابنہ کہ مَلک سجدہ می کنند ‘‘ ۔ کچھ عرصہ پہلے کراچی سے ایک تحقیقی کتاب موسوم بہ Paradise Gods شائع ہوئی ۔ اس میں اس خطے کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ مہران ( مرکز ملتان ) ایسا خطہ ہے کہ جہاں انسان نے پہلی دفعہ اپنے دو پیروں پر کھڑا ہونا اور چلنا سیکھا ۔ جہاں تہذیب ایجاد ہوئی اور انسان کو مہذب بنانے کے عمل کا آغاز ہوا۔ اس علاقے میں سب سے پہلے فن تحریر ایجاد ہوا ۔ خشت سازی اور پختہ عمارتیں تعمیر کرنے کا کام سب سے پہلے یہاں سے شروع ہوا۔ کتاب میں مزید لکھا گیا کہ اس علاقے نے پوری کائنات میں سوتی کپڑا سب سے پہلے متعارف کرائے ، وزن اور پیمائش کے ایسے پیمانے ایجاد ہوئے جو بال برابر بھی فرق نہ تھا۔ نہریں بنا کے زمین سیراب کرنے اور بحری تجارت کا عمل بھی اس خطے سے شروع ہوا ۔ کتاب میں اس علاقے بارے اور بھی بہت ساری معلومات دی گئیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ملتان اور وسیب کی تاریخ کو کیوں روندا گیا ؟ کیا وسیب صرف روندے جانے کے لئے ہے ؟ جی ہاں اگر ملتان اور وسیب کے سیاستدان اس طرح بے حس رہے تو پھر روندے جانا ان کا مقدر ٹھہرے گا۔ صرف ملتان پر ہی کیا موقوف پورے وسیب کے آثار مٹائے جا رہے ہیں ، ہمارے ٹھل ٹھیڑ، ماڑیاں ، مقبرے مسمار ہو رہے ہیں ان پر کوئی توجہ دینے والا نہیں ۔ گزشتہ 73 سالوں کا بجٹ اٹھا کر دیکھیں تو پوری کہانی سمجھ آ جائے گی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ڈیرہ غازی خان کا قلعہ ہڑندبرباد، ڈیرہ اسماعیل خان کا کافر کوٹ اور ہندیرے تباہ، ملتان کے سینکڑوں آثار مسمار ، اوچ کے مزارات انہدام پذیر ، پتن مُنارہ بے نشان ، ڈیراور غیر محفوظ اور باقی تمام آثار مٹی کے ساتھ مٹی ہوتے جارہے ہیں ۔تقسیم کے بعد وسیب کے آثار قدیمہ کی ذمہ دار حکومت وقت تھی مگر کسی بھی حکومت نے ذمہ داری پوری نہیں کی۔ ملتان کے بارے میں ایک فارسی شعر’’ چہار چیز است تحفہ ملتان، گرد ، گرما، گداو گورستان ‘‘تو کہہ دیا گیا لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ کن کن حملہ آوروں نے ملتان کو نیست و نابود کرنے کے بعد اسے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیا ۔ کن کن حملہ آوروں نے ملتان جیسی عظیم ہستی بستی تہذیب کو گورستان بنایا اور وہ ملتان جسے تاریخ نے بیت الذہب یعنی سونے کا گھر کہا اور جہاں کے باسی سونے کی تاروں سے بنے ہوئے جوتے پہنتے تھے اور جہاں کے باسیوں کا شمار کائنات کے امیر ترین انسانوں میں ہوتا تھا ، انہیں کاسہ گدائی تک کس نے پہنچایا؟