وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب جامع اور مدلل تھا ۔ انہوں نے عالمی مسائل، مسلمانوں کو درپیش اسلامو فوبیا کا چیلنج ، مسئلہ کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے اہل پاکستان کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی۔خاص طور پر انہوں نے بتایا کہ ترقی پذیراور غریب ممالک کے وسائل لوٹ کر مغربی ممالک کی تجوریوں بھری جاتی ہیں۔لیکن دنیا کے کانوں پر جوںنہیں رینگتی۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ غریب ممالک میں اشرافیہ کی جاری لوٹ کھسوٹ ختم ہوسکے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے دنیا پر پڑنے والے اثرات اور پاکستان کے بلین ٹری نامی منصوبے کی کامیابی کا ذکربھی انہوں نے کیا اورعالمی برادری کو بتایا کہ اگرچہ پاکستان کا فضائی آلودگی کے پھیلاؤ میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ باوجود اس کے وہ ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے میں دنیا کے ہمرکاب ہے۔بلین ٹری یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کی دنیا بھر میں ستائش کی جاری ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بلین ٹری منصوبے کی تعریف کی اور دنیا کو اس کی تقلید کرنے کی تلقین کی۔ وزیراعظم عمران خان نے خطے کے اہم مسائل خاص کر کشمیر پر دنیا کو موثر انداز میں اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں امن قائم ہوسکتاہے اور نہ ترقی ممکن ہے۔انہوں نے ان تمام اقدامات کاذکر بھی کیا جو بھارت نے دوبرس قبل اگست میں کیے۔ جن کے نتیجے میں نہ صرف پاک بھارت تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی پیدا ہوئی بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ظلم اور ناانصافی کا ایک نیا باب رقم ہوا۔انہوں نے دنیا کو بتایا کہ کشمیر میں جو کچھ ہورہاہے وہ محض سیاسی یا انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ بھارت کی موجودہ حکومت ایک نظریاتی ایجنڈے کے تحت خطے کی آبادی کا تناسب بگاڑنے ،تہذیبی بنیاد تبدیل کرنے اور کشمیریوں کا تشخص تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔یہ عمل عالمی قوانین کے خلاف ہے اور انسانی اقدار کے بھی ۔ چند ماہ قبل فروری میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جنگ بندی نے بہت ساری امیدیں پیدا کیں تھیں۔ پاکستانی لیڈرشپ نہ صرف وزیراعظم عمران خان بلکہ چیف آف دی آرمی اسٹاف بھی بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے کافی پر امید تھے۔ دونوں رہنماؤں نے اس کا عوامی سطح پر اظہار بھی کیا بلکہ رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں بھی شروع کردی گئیں تھیں کہ اچانک بھارت نے پلٹا کھایا اور پیش رفت نہ صرف رک گئی بلکہ پاکستان کے اندر اس کی ناپسندیدہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔جولائی میں تیرہ چینی انجینئرز کی ہلاکت کے پس منظر میں بھارتی اورافغان خفیہ ایجنسی کا ہاتھ نکلا۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی ایجنسی را اور افغان ایجنسی کو اس حملے کا ذمہ دار قراردیا۔یہ بہت ہی غیر معمولی الزام تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت اور افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ چینی مفادات پر مشترکہ طور پر ضرب لگارہے ہیں۔یہ کام آگ سے کھیلنے کے متراف ہے ۔ظاہر ہے کہ بھارتی اور اس وقت کی افغان حکومت نے یہ فیصلہ بھی سوچ و بچارکے بعد کیا ہوگا اور اس کے تنائج سے بھی وہ آگاہ ہوںگے۔ چند دن قبل نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان سے بھگانے میںپاکستانی اداروں کے مطابق بھارت کا نیٹ ورک استعمال ہوا۔ ایسی ای میلز لکھی گئیں، جن کے باعث نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم دہشت زدہ ہوگئی اور پاکستان کا انٹرنیشنل کرکٹ میچ کرانے کا خواب ادھورا رہ گیا۔حکومت پاکستان اور عوام کو اس بھارتی طرزعمل کا سخت رنج ہوا۔وہ اسے ایک منظم منصوبے کا حصہ قراردیتے ہیں ناکہ محض ایک اتفاق۔ افغانستان کے اندر آنے والی تبدیلی نے بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں امکانی بہتری کے آثار دھندلادیے ہیں۔افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم تھی جو پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کی سرگرمیوں کی صرف چشم پوشی نہیں بلکہ اس کی سہولت کار تھی۔ بھارت غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جسے صدراشرف غنی کی حکومت کے خاتمہ کا سب سے زیادہ رنج ہے۔وہ ابھی تک کرب کی کیفیت میں ہے۔ پاکستان نے ایک ڈوزیئربھی اقوام متحدہ کو پیش کیا۔ہولناک حقائق اور واقعات کی ایک طویل فہرست اس ڈوزیئر میں پائی جاتی ہے لیکن ابھی تک عالمی برادری کی طرف سے کوئی قابل ذکر ردعمل سامنے نہیں آیا، جو اس امر کا غماز ہے کہ عالمی برادری بھی محض اپنے مفاد کی عینک سے عالمی قوانین کی پامالیوں کو پرکھتی ہے۔ وزیراعظم نے افغانستان کے حوالے سے بھی پاکستان کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے جہاں پاکستان پر افغان جہاد کے پڑنے والے منفی اثرات کا ذکر کیا وہاں تفصیل کے ساتھ ان عوامل کا بھی ذکر کیا جو مغرب کی لاتعلقی کی وجہ سے پید اہوئے۔ خاص طور پر نوئے کی دہائی میں امریکہ کا افغانستان سے منہ موڑ لینا اور بغیر کسی تصفیہ کے اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ رفو چکر ہوجانے سے اس خطے میں دہشت گرد گروہوں کو منظم ہونے کا موقع ملا۔چنانچہ پاکستان کو بے پناہ مالی اور انسانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔وزیراعظم نے دنیا کو بتایا کہ پاکستان کی قربانی دنیا کے ہرملک سے زیادہ ہے۔ ہم سے زیادہ افغانستان کے امن کا علمبردار کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔ 9/11 کے بعد دہشت گردی کیخلاف امریکا کی جنگ میں 80 ہزار پاکستانی مارے گئے ۔ معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔فوجی آپریشنز میں 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔پاکستان افغانستان میں امن کا سب سے بڑا علمبردار ہے کیونکہ عدم استحکام سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتاہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک ایسا فورم ہے جہاں سال میں ایک بار عالمی رہنما جمع ہوتے ہیں اور اپنے ملک کی علاقائی اور بین الااقوامی امور پر اپنے نقطہ نظر اور ترجیحات کا اظہارکرتے ہیں۔ اس فورم پر ہونے والے خطابات کو ایک طرح سے ملکی پالیسی تصور کیا جاتاہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خطاب سے یہ تنائج اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے کوششوں میں تیزی لائے گا۔ بیرون ملک اثاثہ بنانے والوں کا تعاقب جاری رکھے گا۔کشمیر پر پاکستان کا موقف مفاہمانہ کے بجائے اب جارہانہ ہوگا۔ افغانستان پر پاکستان کی کوشش ہوگی کہ اگر دنیا طالبان حکومت کوتسلیم نہیں بھی کرتی لیکن افغان حکومت کی مالی مد د ضرورکرے تاکہ وہاں غذائی بحران نہ پیدا ہو۔