رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور ایک عام آدمی‘ سفید پوش آدمی‘ غریب آدمی اور خاک بسر آدمی‘ اپنی جیب میں پڑی ہوئی، ریزگاری کو جوڑ توڑ کر کے بار بار حساب کتاب لگاتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں کس طرح سے وہ سحر اور افطار کے وقت اپنے خاندان کے لیے کھانے پینے کا مناسب بندوبست کر پائے گا۔ سحری کے وقت کم از کم روٹی اور دہی اور چائے کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ تیرہ چودہ گھنٹے کے روزے کے بعد افطار کے اوقات میں ٹھنڈا میٹھا شربت‘ پیٹ بھرنے کو پکوڑے سموسے‘ ایک آدھ سالن اور روٹی کا اہتمام بھی ضروری ہے۔اس عام آدمی کی پریشانی سے تو لگتا ہے کہ جیسے وہ صرف رمضان ہی میں کھاتا پیتا ہے اور سال کے باقی مہینوں میں پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کرتا ہے۔ رمضان کی آمد قریب آئی ہے تو حکومت وقت کی طرف سے بھی سفید پوشوں اور غریبوں کے کام پر سخاوت اور فیاضی پر مبنی اعلانات کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ رمضان پیکیج کا اعلان ہوتا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر سبسڈی دینے کے بیانات آتے ہیں۔ ساتھ ہی حکومت کے حواری‘ جابجا اپنی پریس کانفرنسوں میں غریب پرور حکومت کے کارنامے بیان کرتے نہیں تھکتے۔ چونکہ حکمران ہی سمجھتے ہیں کہ اس سفید پوش مخلوق کو صرف رمضان المبارک میں بھوک پیاس لگتی ہے اور انہیں رمضان المبارک میں آٹا‘ گھی‘ دالیں‘ چاول‘ چینی‘ سبزیوں کی ضرورت پڑتی ہے تو اس مہینے میں قیمتوں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ باقی کا سارا سال قیمتوں کو ان کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ آخر کار حکومت غریب پرور ہے اور غریبوں کی قسمت بدلنے کے نام پر ایوان اقتدار میں موجود ہے ،یقینا حکمرانوں کو اپنے وعدے کی پاسداری کا احساس ہے۔ سو یہ احساس کرتے ہوئے حکومت وقت نے پاکستان کے کروڑوں سفید پوشوں اور غریبوں کے لیے 7.8ارب کی خطیر رقم سے رمضان پیکج کا اعلان کیا ہے۔اس خطیر رقم سے ملک بھر کے یوٹیلیٹی سٹوروں پر 19 ضروری اشیائے خورونوش پر سبسڈی دی جائے گی۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں اکثر ضروری اشیاء ان یوٹیلیٹی سٹوروں پر موجود نہیں ہوں گی۔ ان کی قلت ایسی پڑے گی کہ رمضان گزر جائے گا مگر یوٹیلیٹی سٹوروں پر خلق خدا قطار اور انتظار میں خوار ہوتی رہے گی۔ ایسا ہی حال کچھ سہولت بازاروں کا ہے ۔ سہولت سے گزشتہ برس سستے داموں ملنے والے آٹے کا حال یہ تھا کہ بوریوں میں چھان ملا آٹا غریبوں کی غربت کا منہ چڑا رہا تھا۔ رمضان کے راشن کے طور پر بھی جو آٹے کے سستے تھیلے خرید کر لوگوں نے غریبوں کو دیئے گئے وہ بھی چھان والا آٹا اور کائی زدہ آٹا تھا کہ کھانے کے قابل نہیں تھا۔ مہنگائی کو اعداد و شمار میں ناپنے والے لمبی لمبی پریس کانفرنسوں میں معاشی اشاریے بہتر ہونے کی خوشخبریاں دینے والے کیا جانیں کہ کس طرح اس موٹی مہنگائی کے کوڑے غریب کے پنڈے پر برستے ہیں کہ زندگی اس کے لیے ایک مسلسل سزا بن جاتی ہے۔ضرورتوں کے اژدھے منہ کھولے سال کے گیارہ مہینے بھی اسی طرح اسے کھانے کو لپکتے ہیں۔ پیٹ کا ایندھن‘ اس نے سال کے گیارہ مہینوں میں بھی بجھانا ہوتا ہے مگر حکومت وقت زندگی بنیادی ضرورتوں پر خصوصی پیکیج کے اعلان صرف رمضان المبارک میں ہی کرتی ہے،جو صرف اعلانات تک ہی رہتے ہیں۔ کروڑوں غریبوں پر ان کے دیئے ہوئے پیکیج کی رقم کو تقسیم کر کے دیکھیں تو صرف خسارہ بچتا ہے۔ ہمارے ایک محترم قاری اشفاق احمد صدیقی نے ہمیں ٹیکسلا سے وزیراعظم کے رمضان پیکیج کا پوسٹ مارٹم ارسال کیا ہے۔ لکھتے ہیں: جناب وزیراعظم صاحب نے 7.8 ارب کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ اگر اسے 22 کروڑ عوام پر تقسیم کیا جائے تو فی کس 35.5 روپے آئے گا۔ اس میں تو آدھ کلو چینی بھی نہیں آ سکتی۔ اگر تصور کریں کہ 5 کروڑ خاندان جو بہت غریب ہیں ان میں یہ رقم تقسیم ہو تو فی کس خاندان 156 روپے حصے میں آئیں گے۔ 6 افراد پر مشتمل ایک غریب خاندان 156 روپے میں ایک وقت کے کھانے کا بندوبست نہیں کرسکتا۔ چلئے فرض کرتے ہیں کہ وہ مبلغ 156 روپے سکہ رائج الوقت لے کر یوٹیلیٹی سٹور پر خریداری کے لیے جائے تو کیا خریدے گا۔ ایک کلو گھی کا پیکٹ 280 روپے کا‘ بیس کلو آٹے کا تھیلا اعلان کے مطابق 800 روپے کا‘ چینی کا ایک کلو پیکٹ اعلان کے مطابق 80 روپے میں ملے گا جبکہ یوٹیلیٹی سٹوروں پر چینی کا 5 کلو کا پیکٹ دستیاب ہوتا ہے جبکہ غریب ایک وقت میں 5 کلو چینی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ مزدور کی کم سے کم دیہاڑی سات سے آٹھ سو جوکہ روز دیہاڑی لگنا بھی مشکل ہے۔ وہ اس یوٹیلیٹی سٹور سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے اس نے ایک پائو گھی‘ کلو آٹا‘ ایک پائو چینی‘ ایک دن کے لیے لینا ہوتی ہے۔ اسی دیہاڑی میں اس نے گھر کا کرایہ بھی دینا ہے۔ بیمار کے لیے دوائیں بھی خریدنا ہیں‘ اس مقدار میں گھی‘ آٹا‘ چینی‘ دالیں کوئی دیہاڑی دار وزیراعظم کے اس رمضان پیکیج سے فائدہ اٹھانے کے لیے یوٹیلیٹی سٹوروں سے نہیں خرید سکتا۔ تو پھر وزیراعظم فرمائیں کہ انہوں نے 7.8 ارب کا رمضان پیکیج کس کی سہولت کے لیے اعلان کیا ہے۔ میرے حساب کتاب میں تو پاکستان کا غریب مزدور‘ دیہاڑی دار اس سہولت کے دائرے سے باہر ہے۔