22جولائی کو وائٹ ہائوس میں دو ایسی شخصیات کی ملاقات ہونے والی تھی کہ جن کے بارے میں دھڑکتے دلوں کے ساتھ ان کے دوست سوچ رہے تھے کہ خدا خیر کرے۔ سبب اس کا یہ تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان دونوں کے بارے میں حتمی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ وہ کچھ بھی غیر متوقع کہہ سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات بڑی خوشگوار رہی اور بڑی کامیاب رہی۔ ہماری طرف سے تو خیر ہی رہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیر اعظم کے حوالے سے ایک ایسا سچ بولا کہ جس نے اس پنجابی محاورے کی یاد تازہ کر دی کہ : سچ بولیاں بھانبڑ مچدا اے تب سے اب تک بھارت میں بھانبڑ ہی بھانبڑ اور شعلے ہی شعلے ہیں۔ لوک سبھا میں بھارتی اپوزیشن کے ارکان شعلے اگل رہے ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کے لتے لے رہے ہیں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر اینکرز بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو جھوٹا کہہ رہے ہیں اور اپنے وزیر اعظم پر تنقیدی تیروں کی بارش کر رہے ہیں، اس سے جواب طلبی کر رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے 70سال پرانا مسئلہ کشمیر حل کرانے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی تجویز پیش کی تو عمران خان کا جواب تھا کہ چشم ماروشن دل ماشاد ہم بسرو چشم اس ثالثی کے لئے تیار ہیں۔ ٹرمپ نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ دو ہفتے قبل مجھ سے بھارتی وزیر اعظم نے ایک ملاقات کے موقع پر کہا تھا کہ آپ ثالث کا کردار کیوں نہیں ادا کرتے تو میں نے پوچھا کہاں ثالثی کروں؟ تو مودی نے جواب دیا کہ کشمیر میں۔بھارتی اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم شملہ معاہدے اور لاہور ڈیکلریشن کے علاوہ کسی ثالثی کو نہیں مانتے۔ البتہ مسئلہ کشمیر کے لئے امریکی ثالثی کی پیشکش پاکستان کے لئے وائٹ ہائوس کا انمول تحفہ ہے۔ بھارت جس کشمیر کواپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اسے سب سے بڑی عالمی طاقت کا سربراہ ایک متنازعہ قبضہ تسلیم کرتا ہے اور اس کے حل کے لئے ہر ممکن تعاون پیش کرنے پر آمادگی بھی ظاہرکر رہا ہے۔ جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کا تعلق ہے اس کی سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ وہ امریکی صدر جو اس سال کے آغاز میں اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھ رہا تھا کہ پاکستانی دھوکے بازاور دغاباز ہیں۔ وہی ٹرمپ وائٹ ہائوس کی ملاقات کے موقع پر پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’اسلام آباد کبھی جھوٹ نہیں بولتا‘‘ پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھائو کی طویل تاریخ کو نگاہ میں رکھیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ امریکہ کی طرف سے بدلتے ہوئے تلخ و شیریں کلمات بدلتے ہوئے موسموں اور امریکہ کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کا نتیجہ ہوتے ہیں نہ کہ امریکی رویے میں تبدیلی ہماری کسی کرشماتی شخصیت کا کرشمہ ہوتی ہے۔ امریکہ نے کئی ماہ افغانستان سے رخصت ہونے اور وہاں سے اپنی فوجیں بحفاظت نکالنے کا فیصلہ کیا تو اسے اس سفر کی مشکلات کا نہ صرف اندازہ ہوا بلکہ اس حقیقت کا کماحقہ‘ انکشاف بھی ہوا کہ پاکستان کی معاونت سے واپسی کا یہ سفر ممکن بھی ہو سکتا ہے اور پرامن بھی۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کا پرخلوص طریقے سے ساتھ دیا اور اب بھی افغان طالبان اور امریکی قیادت کو آمنے سامنے بٹھانے میں نہایت مثبت کردار ادا کیا۔ عمران خان نے امریکہ میں یہ بھی کہا کہ طالبان جتنے امن معاہدے کے قریب اب ہیں اتنے اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔ تاہم عمران خان نے گزشتہ روز ایک امریکی تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان واپس جا کر طالبان سے ملاقات کروں گا اور ان کی موجودہ کابل حکومت سے ملاقات کا راستہ بھی ہموار کروں گا اور طالبان کو اگلے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ بھی کروں گا۔ یہ کہہ کر عمران خان نے ایک بہت بڑی ذمہ داری اپنی سر لی ہے۔ طالبان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان سے وہ بات نہیں منوائی جا سکتی جس بات پر وہ قائل نہ ہوں۔ عمران خان کے وطن واپس پہنچنے سے پہلے افغانی صدر اشرف غنی نے بھی ایک بیان داغ دیا ہے کہ امن کے لئے امریکی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن غیر ملکی قوتوں کو افغانستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ گزشتہ روز عمران خان نے واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے بعض اہم باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا میڈیا آزاد ہے اور میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستانی میڈیا برطانوی میڈیا سے بھی بڑھ کر آزادی اظہار رکھتا ہے۔ میں میڈیا پر پابندی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ اس آزاد میڈیا ہی کی بدولت میں اپنی انتخابی مہم میں اپنا پروگرام اور منشور لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوا تھا۔ عمران خان نے یہ کہہ کر جمہوری شعور کی پختگی کا ثبوت دیا کیونکہ میڈیا آزاد نہ ہو تو پھر سوشل میڈیا مادر پدر آزادی میں افواہوں اور من گھڑت کہانیوں کو پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ 1977ء کی تحریک نظام مصطفی کے موقع پر میڈیا پر بھٹو صاحب نے شدید پابندیاں عائد کر دی تھیں تب پاکستانی بی بی سی پرمارک ٹیلی کی رپورٹوں کو سنتے اور انہیں سچا سمجھتے تھے۔ عمران خان کی پاکستان میں عدم موجودگی کے موقع پر یہ خبریں بھی سننے میں آئیں کہ اپوزیشن کی ایک جماعت کے 6ہزار کارکنوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے اور اس جماعت کی بعض شخصیات کی خبروں پر پابندی لگا دی گئی۔ خان صاحب کو حقیقت حال معلوم کرنی چاہیے۔ عمران خان نے تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہم برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں۔ اسی خواہش کا اظہار صدر ایوب خان نے ایک پوری کتاب لکھ کر کیا تھا کہ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘۔ خواہش بہت اچھی ہے مگر یہ اس وقت حقیقت کا روپ دھارے گی جب ہم ہر لحاظ سے خودکفیل ہوں گے اور کسی کے دست نگر نہ ہوں گے۔عمران خان کو زیب نہ دیتا تھا کہ وہ ایک غیر سرزمین پر اپنی اپوزیشن پارٹیوں کو سسلین مافیا قرار دیتے۔ 21جولائی کو ایرینا اسٹیڈیم واشنگٹن میں عمران خان نے وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے ایک مدبرانہ خطاب کرنے کا موقع گنوا دیا۔ انہوں نے وہی کئی سال پرانی تقریر کی جو آج کے گلوبل ویلج میں ہر پاکستانی شہری کو ازبر تھی۔ اس موقع پر عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ مجمع کو بتاتے کہ اللہ نے آپ کو خوشحالی سے نوازا ہے جبکہ پاکستان میں چھ سات کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ملی ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے زیور تعلیم سے محروم ہیں اور کروڑوں بچوں کو حسب ضرورت خوراک میسر نہیں۔ آپ آئیں یا نہ آئیں مگر ریاست مدینہ کا نظریہ موأخات اپنائیں۔ اپنے بھائیوں کو وسیلہ روزگار مہیا کریں‘ سستے اور مفت علاج کے لئے ہسپتال بنائیں اور اچھے تعلیمی ادارے قائم کریں۔ مگر عمران خان اپنے مخالفین پر حسب سابق طنزو طعن کے تیر برساتے اور تالیاں بجواتے رہے۔ ہم عدل و انصاف کا ترازو ہاتھ میں تھام کر دل لگتی اور خدا لگتی بات کہیں تو یہی کہیں گے کہ وائٹ ہائوس میں عمران خان کی پرفارمنس کامیاب اور ایرینا میں ناکام تھی۔