گزشتہ روز اسلام آباد میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں لاک ڈائون کی مدت میں دو ہفتے کی توسیع ، البتہ تعمیراتی شعبہ اور صنعتیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بجا اور درست کہا کہ ایک طرف کورونا اور دوسری طرف بھوک ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت کے خلاف سخت قانون لا رہے ہیں، اب ملازم نہیں ، مالک گرفتار ہوں گے۔ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پہلے دن سے کرفیو اور سخت قسم کے لاک ڈائون کے خلاف ہیں۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ تازہ روزی کرنے والے درزی، حجام، الیکٹریشن، میکینک، پلمبر، ریڑھی بان اور چھابڑی فروشوں کو کام کی اجازت دی گئی ہے اور گندم کی فصل، جس کے بارے میں سرائیکی کہاوت ہے کہ ’’جیندے گھر دانے، اوندے کملے وی سیانے‘‘ پر سے لاک ڈائون ختم کیا گیا ہے ، اب کاشتکار آسانی سے گندم کی پیداوار محفوظ کر سکے گا۔ یہ بھی اچھا ہے کہ حکومت کی طرف سے غریبوں کی مدد کی گئی ہے مگر ابھی مزید مدد کی ضرورت ہے کہ ابھی بہت سے لوگ باقی ہیں۔ قوم کو اصل ریلیف معاشی سرگرمیوں کے ذریعے حاصل ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان کو دلیرانہ فیصلے کرنے ہوں گے اور قوم کا لیڈر بن کر بھوک، بیماری اور غربت کے گرداب سے نکالنا ہو گا۔ کرفیو اور لاک ڈائون کے مسئلے پر وزیر اعلیٰ سندھ اور بلاول بھٹو زرداری کا موقف درست نہیں۔ لاک ڈائون میں مزید نرمی کی ضرورت ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور دکانوں کو کھلنا چاہئے۔ آج میں نے خود بازار جا کر سروے کیا اور سٹیشنری اور درزی کا کام کرنے والوں کو ملا تو انہوں نے کہا کہ صبح سے بیٹھے ہیں ایک بھی گاہک نہیں آیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک دکانیں نہیں کھلیں گی، شہری زندگی معمول پر نہیں آئے گی، کام نہیں چلے گا۔ دکان پر کام کرنے والے ایک دیہاڑی دار نے بتایا کہ مجھے کام سے ہٹا دیا گیا ہے اور میرا بھائی جو کہ ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا اُسے بھی ملازمت سے ہٹا دیا گیا ہے۔ جیسا کہ عمران خان نے خود کہا کہ بھوک سے لوگ خودکشیوں کی طرف جائیں گے تو یہ بات شروع ہو چکی ہے ، آج کے اخبارات میں تحصیل دریا خان ضلع بھکر کے علاقہ کھیمٹانوالہ کے رہائشی 50 سالہ یونس کی خبر شائع ہوئی ہے جس نے بھوک اور بیروزگاری کے باعث خودکشی کر لی۔ تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ متوفی 6 بچوں کا باپ تھا، لاک ڈائون کی وجہ سے گھر میں چولہا نہ جلا تو دل برداشتہ ہو کر اُس نے اپنے گلے میں پھندا لے لیا۔ اسی تحصیل کے علاقہ حسن شاہ کے یعقوب نامی شخص نے بیروزگاری سے تنگ آکر کالا پتھر پی لیا۔ کراچی کے علاقہ سرجانی ٹائون میں راشن کی تقسیم کے دوران جھگڑا ہوا جس سے تین افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ پرانی سبزی منڈی کراچی میں بھی بھگدڑ مچی اور اچانک فائرنگ ہوئی، فائرنگ سے کھڑکی میں کھڑی خاتون کو گولی لگی اور وہ جاں بحق ہو گئی۔ واقعہ پر جماعت اسلامی کراچی نے افسوس اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بھوک کا علاج کرنے میں ناکام رہی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق نے کہا کہ حکومت خود وینٹی لیٹر پر ہے وہ علاج تو کیا لوگوں کے ٹیسٹ بھی نہیں کرا سکتی۔ دوسری طرف ملتان کی تاجر تنظیموں نے کہا ہے کہ ہم دکانیں کھولیں گے، کچھ کو اجازت دینا اور کچھ کو نہ دینا ، آدھا تیتر آدھا بٹیر والا ہی معاملہ نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ورزی بھی ہے۔ تاجر رہنما خواجہ شفیق اورسلطان محمود ملک نے کہا کہ زبردستی دکانیں بند کرائی گئیں تو حالات کے ذمہ دار حکومت ہو گی۔ مزدور رہنما جمشید دستی نے کہا کہ غریب اور مزدور بھوک سے مر رہے ہیں مگر مظفر گڑھ کے سرمایہ دار اور جاگیردار ارکان اسمبلی اپنے گھونسلوں میں گھسے بیٹھے ہیں۔ ملتان میں ڈاکٹرز اور طبی عملہ کے افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق نے تشویش پیدا کر دی ہے مگر حکومت کی طرف سے ابھی تک اُن کیلئے کوئی امداد نہیں پہنچی ۔ لاہور کے بچے بھی ہمارے اپنے بچے ہیں مگر دوسرے علاقوں سے سوتیلی ماں کا سلوک نہیں ہونا چاہئے۔ وسیب کے لوگوں کو سابقہ حکمرانوں سے یہی شکوہ رہا کہ وسیب سے امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ وسیب میں بہت غربت ہے اور بہت مسائل ہیں اس کا اظہار مختلف حوالوں سے ہوتا آرہا ہے، سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی نے وسیب کی غربت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوری دنیا میں بسنے والے غریبوں کے مسائل کا ذکر اپنی ایک غزل میں کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’فکر کا سورج طلوع ہوتا ہے اور سوچوں میں شام ڈھل جاتی ہے، اُن غریبوں کے بچے بھوک سے سو نہیں سکتے جن کی مائیں دوسروں کے بچوں کو بہلاتی ہیں اور پھر شاکر شجاع آبادی خدا سے بھی رعایت کا طلب گار ہے، وہ کس چیز کی رعایت مانگ رہے ہیں؟‘‘ آپ بھی پڑھئے۔ فکر دا سجھ اُبھردا ہے سوچیندیں شام تھی ویندی خیالاں وچ سکوں اجکل گولیندیں شام تھی ویندی انہاں دے بال ساری رات روندن بکھ توں سمدے نی جنہاں دی کہیں دے بالاں کوں کھڈیندیں شام تھی ویندی کڈاہیں تاں اے ڈکھ ٹلسن کڈی تاں سکھ دے ساہ ولسن پُلا خالی خیالاں دے پکیندیں شام تھی ویندی غریباں دی دعا یا ربّ خبر نی کِن کریندا ہیں سدا ہنجواں دی تسبی کوں پھریندیں شام تھی ویندی میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر ڈے جو روٹی شام دی پوری کریندیں شام تھی ویندی میں شاکر بکھ دا ماریا ہاں مگر حاتم توں گھٹ کائنی قلم خیرات میڈی ہے چلیندیں شام تھی ویندی