وزیر اعظم عمران خان بغیر پروٹوکول کئی شہروں کے ہسپتالوں کے معائنہ کے لئے اچانک پہنچے تو مسائل کا ایک انبوہ ان کے سامنے تھا۔ سرگودھا‘ جوہر آباد‘ تلہ گنگ کے ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر چار چار مریض لٹائے گئے تھے۔ مریضوں اور ان کے لواحقین نے ہر جگہ ناکافی سہولیات اور بدانتظامی کی شکایت کی۔ وزیر اعظم نے اچھا کیا کہ سرکاری مشینری کو آگاہ نہ کیا ورنہ ان کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے کاسمیٹک انتظامات کر کے ان کے سامنے تسلی بخش رپورٹ پیش کر دی جاتی۔ وزیر اعظم اسی دوران تلہ گنگ تھانے گئے اور ضروری ریکارڈ چیک کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان تب بنے گا جب تھانوں میں عام آدمی کو تحفظ ملے گا۔ پاکستان میں صحت‘ تعلیم اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات پر ریاست نے بڑی واجبی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہسپتالوں میں تشخیص اور علاج کے لئے درکار جدید آلات اور ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ اگر کہیں کوئی درد دل رکھنے والا عہدیدار جدید آلات درآمد کر لیتا ہے تو ایسی چیزیں ہسپتالوں میں پڑی پڑی ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ حکمران ہسپتالوں کے نام پر ڈسپنسریاں بنا رہے ہیں جہاں مریض کو ابتدائی طبی سہولت دے کر نجی ہسپتالوں کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ عام آدمی کی صحت کئی وجوہات کی بنا پر تباہ ہو رہی ہے۔ ناخالص غذا‘ ذہنی پریشانی اور علاج کی ناکافی سہولیات نے بیماریوں کے پھیلائو میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مالی وسائل کی کمی نے صحت کے حوالے سے مسائل کی شدت بڑھا دی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان 190ممالک میں صحت کی سہولیات کے اعتبار سے 122ویں درجے پر ہے۔ دوران زچگی بچوں کی موت کے لحاظ سے پاکستان اس وقت تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں 6کروڑ سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، یہ اپنی بیماری کا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔ ہمارے ہسپتال‘ ڈاکٹر ‘ نرسیں اور لیبارٹریز ان محروموں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ پورے پنجاب میں بچوں کا ایک خصوصی ہسپتال ہے۔ یہاں اگر کسی بچے کو دل کے آپریشن کی ضرورت ہو تو اسے کم از کم پانچ سال کے بعد آپریشن کی تاریخ دی جاتی ہے۔ پاکستان بھر میں سالانہ دو لاکھ آپریشن ہوتے ہیں۔ آپریشنوں کی تعداد ہر روز بڑھتی جا رہی ہے مگر سرکاری ہسپتالوں میں سرجیکل سہولیات ناپید ہیں۔ ہمارے ہاں پندرہ امراض سنگین سطح پر موجود ہیں۔ ملیریا‘ ٹی بی‘ڈینگی بخار‘ کینسر‘ سانس اور دل کے امراض‘ بخار ‘ شوگر‘ ہیپاٹائٹس‘ ایڈز‘ چائلڈ ہیلتھ‘ نظام تنفس کے امراض‘ ہائیپر ٹینشن ‘ دمہ‘ ہیضہ اور دماغی امراض ان پندرہ عوارض میں شمار ہوتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس ملک میں ساڑھے چھ کروڑ افراد دماغی امراض کا شکار ہیں مگر ان میں سے بہت کم ایسی علامتوں کو مرض تسلیم کرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کو صوبائی خود مختاری کے حوالے سے بہت سراہا جاتاہے۔ یقینا اس کے کچھ فوائد صوبوں کو ملے ہیں مگر صحت کا شعبہ کلی طور پر صوبوں کے دائرہ اختیار میں آنے کے بعد انحطاط کا شکار ہوا ہے۔ صوبوں نے ابھی تک پولیو‘ وبائی امراض‘ الرجی، ہیپاٹائٹس اور ایڈز کنٹرول کے متعلق کوئی جامع پروگرام تشکیل نہیں دیا۔ صوبائی سطح پر ہیلتھ کیئر کمشن قائم کئے گئے مگر پنجاب میں خصوصاً اور باقی صوبوں میں عموماً صوبائی ہیلتھ کیئر کمشن کا عملہ داخلی سیاست اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے سوا کچھ نہیں کر رہا۔ سندھ میں حالیہ دنوں سینکڑوں افراد کا ایڈز میں مبتلا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہاں محکمہ صحت کے حکام عام مریضوں سے ملتے ہیں نہ اپنے طور پر امراض کی نگرانی کرتے ہیں۔ بلوچستان میں صحت کی سہولیات سرے سے موجود نہیں۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی سابق حکومت نے کچھ مفید اقدامات کئے تاہم ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجاب آدھا‘ پاکستان ہے۔ مسلم لیگ ن نے یہاں افسر شاہی اور سیاسی انتظامیہ کو ایک خاص نمائشی انداز میں کام کرنے کا عادی بنا دیا ہے۔ عوامی سطح پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم اپنی دیگر مصروفیات میں سے وقت نکال کر عام آدمی بن کر ہسپتالوں‘ تھانوں‘ پٹوار خانوں، مویشی و سبزی منڈیوں اور ان تعلیمی اداروں کا معائنہ کریں جو سرکار کے انتظام میں ہیں۔ عام آدمی ان ہی جگہوں پر ملے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ذاتی شرافت اپنی جگہ مگر انہیں ایک متحرک اور سرگرم وزیر اعلیٰ کے طور پر اب تک عام آدمی تک خود پہنچنا چاہیے تھا۔ جناب عثمان بزدار نے ایسے چند دورے کئے مگر ان کے نتائج وہی نکلے۔ چند معطلیاں ‘ کچھ انتباہ۔ یہ صورت حال یقینا وزیر اعظم کے لئے تسلی بخش نہیں اس لئے انہوں نے اس محاذ پر خود متحرک ہونے کا فیصلہ کیا۔ تحریک انصاف کو تبدیلی کے نام پر ووٹ ملے ہیں۔ تبدیلی کے اس تصور میں سیاسی حکمرانوں اور افسر شاہی کے انتظامی کردار کی اصلاح بھی شامل ہے۔ تبدیلی یہ ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اپنے کام کرتے رہیں اور ہسپتالوں سے لے کر تھانوں اور پٹوارخانوں تک کے معاملات خرابیوں سے پاک ہو جائیں۔ وزیر اعظم کو اس بات کی ضرورت ہی نہ رہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے خود اداروں کا معائنہ کرے۔ یہ متعلقہ محکموں کے سربراہوں کا فریضہ ہے۔ اگر محکموں کے سربراہ عوام کی مشکلات کم کرنے میں ناکام ہوں تو ان سے باز پرس کی جانی چاہیے۔تبدیلی کا احساس عام آدمی تک پہنچانا ہی دراصل تبدیلی ہے۔