وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دینے کے ساتھ کثیر الجہتی بحرانوں میں اپنی حکومت کی کارکردگی بھی پیش کی۔ وزیر اعظم نے جن معاملات پر 75منٹ کی تقریر میں روشنی ڈالی ان میں حکومت کی معاشی پالیسیاں‘کورونا وبا‘ٹڈی دل‘خارجہ پالیسی اور ملک میں جاری احتساب کا عمل شامل ہیں۔انسداد کورونا اقدامات کے حوالے سے وزیر اعظم نے اپوزیشن کی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے میں حکومت کسی طرح کی کنفیوژن کا شکار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حادثہ ہو یا کورونا کی وبا اپوزیشن ریاست مدینہ کا طعنہ دینے میں دیر نہیں کرتی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 90فیصد نیب مقدمات ان کی حکومت سے پہلے کے ہیں لیکن گالیاں انہیں دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے دشمنی ہے نہ بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر میں پہلے سا جارحانہ موڈ دکھائی نہیں دیا۔ وہ حکومتی فیصلوں کا دفاع کرتے رہے اور ساتھ ہی اپوزیشن سے تعلق بہتر بنانے کا اشارہ دیا۔ پارلیمانی جمہوریت کی جو شکل پاکستان میں رائج ہے اسے قطعی طور پر مغربی جمہوریت جیسا نہیں سمجھنا چاہیے جہاں پورا نظام صرف اور صرف شہری کی آزادیوں اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں خاندانی‘ وراثتی اور شخصیتی تنظیم ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں داخلی انتخاب ہوتا ہے نہ عوام کو کسی طرح کے منشور سے آگاہ کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ تمام جماعتیں اقتدار میں آ کر ایک جیسی کارکردگی دکھاتی رہی ہیں جسے ناکام ہی کہا جا سکتا ہے۔ ان جماعتوں نے ملکی وسائل کی لوٹ مار کو روکنے کے لئے کوئی انتظام نہ کیا۔ اگر کبھی احتساب کا عمل شروع بھی کیا تو اس کا مقصد سیاسی مخالفین کو زچ کرنا تھا۔ وزیر اعظم نے جن مقدمات کی طرف توجہ دلائی ان میں سے کئی مقدمات پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے جن کی تحقیقات مکمل ہوئیں نہ آج تک فیصلہ ہو سکا۔ عمران خان کے نزدیک پہلے سے احتساب ایک بامعنی اور بامقصد عمل رہا ہے۔ تحریک انصاف کے منشور میں سب سے زیادہ جس بات کو پذیرائی ملی وہ بلا امتیاز احتساب ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے دو عشروں سے التوا کے شکار مقدمات کو روکے رکھنے کی کوشش نہیں کی جس کے باعث نیب ایک ایک کر کے ان پر تحقیقات کر رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ایک تسلسل سے حکومت اور نیب میں گٹھ جوڑ کا غوغا کر رہی ہیں۔ دوسری طرف ہمارا پورا نظام بدعنوان ہونے کی وجہ سے ہر بااثر اور دولت مند کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ قانون کے شکنجے سے نکل بھاگے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں اور چند چھوٹی جماعتوں نے کئی بار درپردہ کوشش کی کہ حکومت ان کے قائدین کے خلاف قانونی کارروائیوں کو بند کرا دے۔اس طرح کی پیشکشوں کے بدلے کچھ امور میں ساتھ دینے کا بھی کہا گیا لیکن عمران خان اپنے منشور کے سب سے مقبول نکتے پر سمجھوتے پر آمادہ نہ ہوئے جس پر انہیں متکبر اور مغرور جیسے نام دیے گئے۔حالیہ دنوں بعض حکومتی شخصیات کے مابین اختلافات دیکھنے میں آئے۔ وزیر اعظم نے بروقت مداخلت کر کے اس سلسلے کو فوری طور پر روک دیا لیکن اپوزیشن جماعتوں کو یہ صورتحال حکومت کے کمزور ہونے کا اشارہ دکھائی دی۔ یہی وجہ ہے کہ مدت سے خاموش خواجہ آصف ایک بار پھر متحرک دکھائی دیے۔ بلاول بھٹو زرداری اور خواجہ آصف نے اسی غلط فہمی میں وزیر اعظم کو مناظرے کا چیلنج دیدیا۔ایسا ہی ایک چیلنج بلاول بھٹو نے چند روز قبل دیا تو وزیر اعظم کے معاون شہباز گل جیکب آباد جا پہنچے۔جہاں کا ہسپتال اجڑا اور سہولیات سے محروم پڑا تھا۔پاکستان کے سامنے کورونا کے انسداد‘بدعنوانی کے خاتمہ‘عوام کی نظروں میں جمہوریت کی ساکھ بہتر بنانے اور معیشت کی بحالی جیسے چیلنج کھڑے ہیں۔ وزیر اعظم نے شاید اندازہ کر لیا ہے کہ احتساب کا عمل جاری رکھنے کے ساتھ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری ضروری ہے۔ اس سے غیر ضروری سیاسی محاذ آرائی ختم ہو سکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے باہم تنازعات نے ووٹر کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کا جمہوری نظام پر اعتماد کمزور ہوا ہے۔ بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم کی تقریر کو کسی کا اشارہ قرار دینے کی بجائے اس پیغام تک پہنچا جائے جو وزیر اعظم دینا چاہتے ہیں۔جب تک تمام سیاسی جماعتیں ایک نکتے پر متفق نہ ہوں ملک کو لاحق چیلنجز سے نمٹنا مشکل ہو گا۔ پارلیمنٹ قومی امور پر بحث اور مسائل کو حل کرنے کے لئے تجاویز دینے کا فورم ہے۔ بجٹ اجلاس ایک ہفتے سے جاری ہے لیکن کسی طرف سے مفید مشورہ اور تجویز نہیں آئی۔اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اپوزیش اپنی بے گناہی کا رونا رونے کی بجائے حکومت کو بجٹ میں بہتر تجاویز فراہم کرے جس سے عوام کا بھلا ہو ،گزشتہ روز بھی بلاول اور خواجہ آصف اپنی بے گناہی کی باتیں کرتے رہے لیکن انھوں نے ایک بھی مفید مشورہ نہیں دیا ،اپوزیشن بجٹ سیشن کے جاری اجلاس میں کم از کم کوئی اچھی تجویز دے سکتی ہے ،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے بارے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کئی دن سے کہ رہے ہیں لیکن خواجہ آصف کو یہ مسئلہ اسمبلی فورم پر اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین پارلیمنٹ کی سطح پر مفاہمت سے ایسے قومی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے جو صرف ہماری باہمی نااتفاقی اور ذاتی عناد کی وجہ سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔اس لیے حکمران جماعت بڑے ہونے کے ناطے اپوزیشن کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھائے تاکہ ملکی معاملات بہتر انداز میں چل سکیں ۔