وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی سرگوشیوں کو قطعیت کے ساتھ رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عثمان بزدار ہی صوبائی معاملات کے انچارج ہیں۔ صوبے میں بڑے پیمانے پر انتظامی افسران کی تبدیلی کے بعد لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ ’’اب پرانے اور نئے پنجاب میں واضح فرق نظر آئے گا۔ تبادلے پنجاب کی گورننس درست کرنے کے لیے کیے ہیں۔ تین ماہ میں بہتری نظر آئے گی‘‘۔ پنجاب مجموعی ملکی آبادی کا نصف ہے۔ بارہ کروڑ نفوس کا یہ صوبہ بنیادی طور پر زرعی پیداوار کے لیے معروف ہے۔ قدیم زمانے سے پنجاب کو ہندوستان کا اناج گھر کہا جاتا رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جب بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاملات کا حل تلاش کیا گیا تو ان معاہدوں میں پنجاب کی زراعت اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو خاص طور پر مرکز توجہ بنایا گیا۔ ملک کی زیادہ آبادی اس صوبے میں ہے اس لیے شہریوں کی بہبود کے لیے حکومتوں نے جس قدر پالیسیاں ترتیب دیں ان میں پنجاب کی مخصوص اہمیت رہی۔ تنازع کشمیر میں پاکستان کو جو جغرافیائی اہمیت حاصل ہے اس کی پشت پر پنجاب کے علاقے ہیں۔ پنجاب میں ہندوئوں کی قدیم ترین یادگار کٹاس راج اور سکھوں کے مقدس ترین مقامات بابا گورو نانک کا جنم استھان اور سمادھی موجود ہیں۔ جدید صنعتوں نے پنجاب کے شہروں فیصل آباد، گوجرانوالہ اور گجرات کی شکل بدل دی ہے۔ ان خصوصیات والے صوبے میں گورننس اور عوامی رابطہ کاری میں مسائل درپیش ہوں تو حکومت کی مقبولیت تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔پنجاب میں طویل عرصہ تک مسلم لیگ ن کی حکومت رہی۔ چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے سال نکال دیں تو پچھلے 35سال میں بقیہ عرصہ نواز شریف، شہباز شریف یا ان کا نامزد شخص حکمران رہا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت میٹروپولیٹن سٹی کی انڈسٹریل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اس لیے انہوں نے جو انتظامی ماڈل اختیار کیا اس میں بیورو کریسی پر انحصار بڑھایا۔ پہلے تین چار ادوار میں سرکاری افسران کی وفاداریاں خریدنے کا کام کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے آئی جی اور سیکرٹری ریٹائرمنٹ کے بعد شریف خاندان کے ذاتی ملازم بن گئے۔ مسلم لیگ ن نے 2013ء سے 2018ء تک کے دور میں منتخب نمائندوں کو بری طرح نظر انداز کیا۔ وفادار سرکاری ملازموں کو نوازنے کے لیے پنجاب میں56کمپنیاں قائم کی گئیں۔ میٹ کمپنی، ٹرانسپورٹ کمپنی، صاف پانی کمپنی، سالڈ ویسٹ کمپنی، پارکنگ کمپنی اور ان جیسی دیگر کمپنیوں کے ذمے وہی امور تھے جو صوبائی وزارتیں انجام دے رہی تھیں۔ ایک ہی کام کو پہلے سے موجود سرکاری محکمے اور نئی بننے والی کمپنیاں انجام دینے لگیں۔ عوامی وسائل بری طرح ضائع کیے جا رہے تھے۔ ان کمپنیوں کے سربراہ بنائے جانے والے سرکاری افسران کو بھاری معاوضے دیئے گئے۔ 56کمپنیوں کا معاملہ عدالت میں ہے۔ سابق حکمرانوں، ان کے رشتہ داروں اور نوازے گئے افسران کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔ تحریک انصاف بائیس برس تک اس نظام کے خلاف جدوجہد کرتی رہی جسے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے فائدے کے لیے تشکیل دیا تھا۔ عمران خان کی تحریک میں وہ دن یادگار تھا جب انہوں نے 30اکتوبر2011ء کو مینار پاکستان کے وسیع و عریض سبزہ زار میں بھرپور جلسہ کر کے ہوائوں کا رخ بدلنے کی خبر دیدی۔ عمران خان نے نا انصافی، بدعنوانی اور بدانتظامی سے پریشان شہریوں سے وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آ کر بہترین ٹیم ترتیب دیں گے۔ پشاور کی ریپڈ بس کا معاملہ الگ رکھیں تو پھر بھی لاہور کی اورنج لائن ٹرین منصوبے پر جس رفتار سے کام ہو رہا ہے وہ کسی طرح تسلی بخش نہیں۔ کئی بار افتتاح کی تاریخیں دی گئیں۔ اب پھر وزیر اعظم نے 10دسمبر کو ٹرین چلانے کا اعلان کر دیا ہے مگر متعلقہ محکمے تیاری نہ ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ پنجاب پولیس سیاسی مداخلت کے باعث ناکارہ ہو چکی ہے۔ بہتر ہوتا یہ ادارہ ختم کر کے نئی فورس کھڑی کی جاتی۔ تحریک انصاف کی حکومت کہتی ہے کہ وہ عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس پالیسی کا عوام کو فائدہ نہیں ہوا صرف پولیس، محکمہ مال اور دوسرے محکموں کے بدعنوان عناصر کو فائدہ ہوا جو جوابدہی کا سیاسی نظام غیر فعال ہونے پر مزید نڈر ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ پنجاب میں تمام پارٹی عہدیدار، اتحادی جماعتوں کے اراکین اور انتظامی ادارے عثمان بزدار کی سربراہی میں کام کریں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جن سے وہ سردار عثمان بزدار کی قیادت میں کام کرنے کا کہہ رہے ہیں ان لوگوں کی بڑی تعداد مختلف وجوہ کے باعث عثمان بزدار کی قیادت دل سے تسلیم نہیں کر رہی۔ اس سے پارٹی کے اندر اختلافات بڑھے ہیں۔ پرانے کارکنوں کو شکایت ہے کہ انہیں نظرانداز کیا گیا ہے۔ عوامی سطح پر یہ امر واضح طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ پارٹی تنظیم حکومتی مہم میں شرکت نہیں کر رہی، ڈینگی کی وبا ہو، کشمیر پر احتجاج ہو، مخالفین کے خلاف پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے کا معاملہ ہو، تحریک انصاف کی پارٹی تنظیم عوامی سطح پر اپنی موجودگی ظاہر نہیں کر سکی۔ اپوزیشن نے اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ان کے بلدیاتی امیدوار لوگوں کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال اس قدر اطمینان بخش نہیں جتنی جناب وزیر اعظم کے گوش گزار کی گئی ہے۔ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ وزیر اعظم اپنا فیصلہ درست ثابت کرنے کے لیے سردار عثمان بزدار جیسے شریف النفس سمجھے جانے والے وزیر اعلیٰ پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ پارٹی اور انتظامی فیصلوں کے درمیان جو خلیج ہے اسے ختم کیا جائے، تھانوں میں نمائشی تبدیلی کی بجائے انصاف ملے۔ مدت سے ادھورے ترقیاتی منصوبے جلد مکمل کیے جائیں۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی کا مؤثر ماڈل فوری طور پر متعارف کرایا جائے اور پنجاب کے عوام کو اس تبدیلی کا احساس دلایا جائے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔