معزز قارئین!۔ آج 14 اکتوبر کو امیر جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ )کے والدِ مرحوم مفتی محمود صاحب کی 39 ویں برسی ہے ۔ مجھے نہیں معلوم ؟ کہ ’’ مفتی صاحب کے وُرثا ء ، اُن کی برسی کو کس طرح منائیں گے؟لیکن، پرانی نسل کو یاد دِلانے اور نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لئے ، تحریک ِ پاکستان میں مفتی محمود کے کردار کو واضح کرنا ضروری ہے ۔ انگریزوں اور ہندوئوں نے تو، قیام پاکستان کی مخالفت کی ہی تھی لیکن، ہندوئوں کی مُتعصب جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپو ؔ ۔ بنیا قوم کے ، شری موہن داس کرم چند گاندھی ؔکے چرنوں میں بیٹھ کر جمعیت عُلمائے ہند کے ایک گروپ نے بھی ، اسلامیانِ ہند کے لئے الگ وطن کی مخالفت کی تھی اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کا فتویٰ بھی دِیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مفتی محمود صاحب کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شُکر ہے کہ ہم ، پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں صدر جنرل محمد ایوب خان کے مقابلے میں، قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں لیکن 7 نومبر 1964ء کو ملتان میں ’’جمعیت عُلماء اسلام ‘‘کی مجلس شوریٰ سے خطاب کرتے ہُوئے مفتی محمود صاحب نے فتویٰ دِیا تھا کہ ’’ شریعت کے مطابق محترمہ فاطمہ جناحؒ سربراۂ مملکت کے عہدے کے لئے نااہل ہیں ‘‘۔ اِس پر صدر محمد ایوب خان سے مفتی صاحب اور اُن کے ہم مسلک مولویوں کی بہت ہی قُربت ہوگئی تھی اور صدر ایوب خان نے مفتی صاحب کے زیر سایہ مدرسوں کی دِل کھول کر سرپرستی کی تھی۔ مفتی محمود صاحب کو خُوش کرنے کے لئے ہی صدر ایوب خان نے 1962ء میں ’’ اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ قائم کی تھی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ’’ اِس ’’ اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ نے کبھی بھی کسی بھی حکومت کو اسلام کے ’’حقیقی ، معاشی اور فلاحی نظام ‘‘کا نقشہ پیش نہیں کِیا؟۔ مفتی محمود صاحب کے ایک پیرواور فضل اُلرحمن صاحب کی جمعیت عُلماء اسلام (ف) کے اہم رُکن ، مولانا محمد خان شیرانی یکم جون 2013ء سے 31 مئی 2018ء تک ’’ اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ کے چیئرمین رہے ۔ 17 فروری 2015ء کو اُنہوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’جمہوریت ، کُفر کا نظام ہے‘‘۔ جولائی 2013ء میں مولانا شیرانی نے مطالبہ کِیا تھا کہ ’’ چیئرمین ’’ اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کو بھی ، چیئرمین سینٹ آ ف پاکستان اور قومی اسمبلی کے سپیکر کے برابر "Status" دِیا جائے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ خُدا کا شکر ہے کہ ’’ صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے ، مولانا شیرانی صاحب کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کِیا ، ورنہ وہ کسی بھی وقت صدرِ پاکستان کے بیرونی دورے کی صورت میں قائداعظمؒ کے پاکستان کے قائم مقام صدر بن جاتے ؟ لیکن، اُس وقت تو، قیامت صغریٰ کا منظر تھا کہ ، جب سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دئیے گئے وزیراعظم نواز شریف کے "His Master's Voice" وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مفتی محمود صاحب کی 37 ویں برسی سے ایک دِن پہلے 13 اکتوبر 2017ء کو اسلام آباد کے وزیراعظم آفس میں منعقدہ تقریب میں ، وزیراعظم ہائوس کی ایک دیوار میں نصب "Plaque" ( دھات، چینی، وغیرہ کی تختی) کی نقاب کُشائی کرتے ہُوئے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مفتی محمود صاحب کی ’’دینی، قومی اور سیاسی خدمات‘‘ کے اعتراف میں کل 14 اکتوبر کو ’’یادگاری ڈاک ٹکٹ‘‘ بھی جاری کِیا جائے گا‘‘۔ 16 اکتوبر 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ نظریاتی سرحدیںؔ ۔ اور۔ یادگاری لوحِ ؔ مفتی محمود؟‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ’’ شاید کسی ’’رُوحانی یا غیر رُوحانی‘‘ قوت نے ، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے چچا حضرت عباسؓ بن عبداُلمطلب ؓکی اولاد ہونے کے دعویدار وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مفتی محمود کے اعزاز میں ’’ یادگاری ڈاکٹ ٹکٹ‘‘ جاری کرنے کا اعزاز حاصل کرلِیا ہے ۔ معزز قارئین!۔ 5 جنوری 2018ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ نظام سقّا ۔ وزیراعظم عباسی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ؟‘‘۔ اُس کالم میں مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ نہ جانے میاں نواز شریف کے لئے کِن خدمات کے عوض (45 دِن کے لئے ) شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم مقرر کِیا ہے ؟‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ جب مغل بادشاہ نصیر اُلدّین ہمایوں کو ایک باغی سردار شیر خان (شاہ ) سوری سے شکست کھا کر بھاگنا پڑا تو نظام ؔنامی ایک سَقّے نے اُس کی جان بچا دِی تھی۔ ہمایوں بادشاہ جب ،دوبارہ دہلی کے تخت پر بیٹھا تو اُس نے ’’نظام سَقّا ‘‘ کی خدمات کے عوض ،اُسے ایک دِن یا اڑھائی دِن کے لئے ہندوستان کا بادشاہ بنا دِیا تھا !‘‘۔ پھر تھوڑے دِن کی حکومت کو ’’سَقّے کی بادشاہ ہی ‘‘ کہا جانے لگا ۔ معزز قارئین!اب کیا کِیا جائے ؟ کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تو اُٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے یہی گردان کِیا کرتے ہیں کہ ’’ اصل وزیراعظم اور میرے دِل کے وزیراعظم تو میاں نواز شریف ہیں !‘‘۔تاریخ میں لِکھا ہے کہ ’’ نظام سَقّا کے مختصر سے دورِ بادشاہی میں ،ہمایوں بادشاہ اور اُس کے سارے درباری ہاتھ باندھ کر ’’دربارِ سَقّا‘‘ میں کھڑے رہتے تھے ! ‘‘۔ مَیں سوچتا ہُوں کہ ’’ جب کوئی درباری اپنے ’’عبوری بادشاہ ‘‘ ۔نظام سَقّا کو ’’ظلِ الٰہی / بادشاہ سلامت ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہوگا تو ’’عبوری بادشاہ ‘‘ یہی سوچتا ہوگا؟ کہ ’’اصل بادشاہ اور میرے دِل کے بادشاہ ‘‘ تو ’’سُلطان ابنِ سُلطان نصیر اُلدّین ہمایوں ہیں ؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ جب جناب عمران خان نے 18 اگست 2018ء کو وزارت عظمیٰ کا حلف لِیا تو، مَیں نے اپنے کالم میں اُن سے درخواست کی تھی کہ’’ آپ اپنی پہلی فرصت میں وزیراعظم ہائوس اسلام آباد کی کسی دیوار میں نصب مفتی محمود (مرحوم) کی ’’یادگاری لوح‘‘ کو وہاں سے اُکھاڑ دیں/ اُکھڑوا دیں‘‘۔ فی الحال بقید ِ حیات تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) قائدئین اور کارکُنان اور اُن کی آل اولاد کو بہت ہی دُکھ ہوتا رہے گا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں ، متحدہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں 18 لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہُوئے تھے اور لاکھوں مسلمان عورتوں کو ، دہشت گرد ہندوئوں اور سکھوں نے اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کی تھی‘‘۔ مجھے نہیں معلوم ؟ کہ آج مفتی محمود (مرحوم) کی 39 ویں برسی پر اُن کے فرزند ِ اوّل فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کے زبان و بیان سے لیس حضرات اسلام آباد کے آزادی مارچ میں کیا کریں گے ؟ لیکن،مجھے یاد آ رہا ہے کہ ’’ جب 6 اپریل 2007ء کو اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب (سرکاری ملازم) مولانا عبداُلعزیز نے ’’امیر اُلمومنین ‘‘ کا لقب اختیار کر کے اور اپنے چھوٹے بھائی نائب خطیب (سرکاری ملازم) عبداُلرشید غاز ی کو اپنا نائب مقرر کر کے پورے پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے کا اعلان کردِیا تھا اور وہ کسی صورت میں اپنا فتویٰ (اعلان ) واپس لینے کو تیار نہیں تھے تو، (اُن دِنوں) صدرِ پاکستان ، جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے حُکم سے 3 جولائی 2007ء کو لال مسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کو "Operation Sunrise" کرنا پڑا تھا ، جس کے نتیجے میں 113 دہشت گرد مارے گئے اور 11 پاک فوج کے اہلکار بھی شہید ہُوئے تھے ۔ معزز قارئین!۔ 12 جولائی 2007ء کو اسلام آباد میں (اُن دِنوں) فعال اور متحرک متحدہ مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد (مرحوم) ، سیکرٹری جنرل فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کے دست ِ راست عبداُلغفور حیدری صاحب نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری ، امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید نہیں کہا جاسکتا‘‘۔قاضی حسین احمد تو خیر خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں لیکن، ابھی تک پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اِس نازیبا بیان کا نوٹس نہیں لِیا۔ بہرحال میرا چھوٹا سا مطالبہ تو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ’’ وزیراعظم ہائوس کی دیوار میں نصب ’’یادگاری لوحِ مفتی محمود کو تو،اُکھاڑ یں!‘‘۔